مشال خان: وہ باچا خان کے خدائی خدمت گار کیا ہوئے؟


مشال خان کو خوف و ہراس کے عالم میں دفنا دیا گیا ہے۔ ہو کا عالم تھا جب اس کا جسد خاکی آخری آرام گاہ کی طرف لے جایا جارہا تھا۔ کتنے کندھے میسر تھے؟ جنازہ فلم کے فیتے پہ موجود ہے، دیکھ لیجیے۔ ایک چیز پر دھیان دیجیے گا۔ جنازے کی ہر فلم میں نعتوں کی اوازیں پس منظر میں سنائی دی رہی ہیں۔ مقامی پیش امام کے حکم پر یہ نعتیں چلوائی گئی تھیں؟ کیوں؟ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ایک گستاخ مذہب کے جنازے کی امد سے فضا جو آلودہ ہوگئی ہے، وہ نعت خوانی کی برکت سے پرکیف بنائی جا سکتی ہے۔ یہ وہی پیش امام ہیں جنہوں نے جنازے میں شرکت کرنے والوں سے تجدید نکاح کا تقاضا کیا ہے۔ مگر رکیے، کسی پیش امام سے کیا گلہ، انہوں نے تو وہی کیا جس کی ان کی توقع کی جاتی ہے۔ یہ خان عبدالغفار خان باچا خان کے فرزندوں کی وہ کج کلاہی بلند آہنگی اور انسان دوستی کیا ہوئی؟ واللہ عوامی نیشنل پارٹی کے کردار نے ریاست کے کردار سے کہیں زیادہ مایوس کردیا ہے۔

مشال نے عبدالولی خان یونیورسٹی کی انتظامیہ کے خلاف تین نکاتی ایجنڈے پہ مشتمل تحریک اٹھائی ہوئی تھی

1۔ وائس چانسلر تعینات کیوں نہیں کیا جارہا
2۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ مکمل نہیں ہے کچھ افراد نے اضافی عہدے سنبھال رکھے ہیں۔
3۔ باقی سرکاری اداروں میں آٹھ دس ہزار پر سمیسٹر فیس بنتی ہے، یہاں پچیس ہزار تک کیوں لی جاتی ہے۔

آسان بھاشا میں یوں کہیے کہ مشال خان نے ادارے میں بڑھتی ہوئی کرپشن کے خلاف آواز اٹھا رکھی تھی۔ چونکہ جیب سے چرس برامد کرنے والی واردات پرانی ہوگئی ہے، چنانچہ اس پر انتظامیہ نے توہین رسالت کا چارج لگا دیا۔ اس چارج کو عملی صورت دینے میں اے این پی کی طلبہ تنظیم پی ایس ایف کے کارکنوں نے کردار ادا کیا۔ مجھے یہاں یہ بتانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے عبدالولی خان یونیورسٹی کی انتظامیہ ہمیشہ سے عوامی نیشنل پارٹی کے تائید کنندگان پر مشتمل رہی ہے۔

اب کئی مرحلے گذر چکے ہیں۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے مشال پہ وہ فرد جرم عائد کی جس کا سراغ ہزار کوششوں کے بعد ریاستی ادارے نہیں لگا پائے۔ اب تک فورنزک لیب کا عملہ مشال کی فیس بک وال، میسنجر، وٹس ایپ، وائبر، ٹیکسٹ میسجز اور ای میل سے کوئی قابل اعتراض مواد دریافت نہیں کرسکا۔ مشال کی دیوار وہیں کھڑی ہے، اس پر موجود مشال کے نوشتوں میں اب تک کوئی ایسا جملہ میں دریافت نہیں کرسکا جس میں لب ولہجے تک کی کوتاہی موجود ہو۔ مشال کے کمرے سے کتابوں اور خوابوں کے سواکچھ برامد نہیں ہوسکا ہے۔ دھرتی کا ایسا پیارا بچہ سنگسار کردیا گیا۔ ستم تو یہ ہے ہی کہ سنگسار کیا گیا، ستم بالائے ستم یہ ہے کہ آشنا ہاتھ اس کی جانب لپکے ہیں۔ خان عبدالولی خان کے نام سے موسوم جامعہ میں باچا خان کے فرزند وڈیو بناتے رہے۔ سرخ پوش کارکن سوشل میڈ پر قتل کی حمایت کرتے رہے اور جناب اسفندیار خان صاحب نے اس واقعے کی مذمت کے لیے وہی رسمی الفاظ برتے جو قبائل میں مارے جانے والے پختونوں کے لیے ہمارے مرکزی رہنما برتتے ہیں۔

یہ سانحہ باچاخان کے گھر میں ہوا ہے۔ وہ بچہ مارا گیا ہے جس کی تربیت اس کے باپ نے باچا خان کے فلسفے پر کی تھی۔ اس باپ نے اپنا خون خون جگر تہہ خاک دفناتے ہوئے وہی کردار ادا کیا جو باچا خان نے گاؤں گاؤں گھوم کر پختونوں کو تعلیم کیا تھا۔ وہی کردار جو اس سے پہلے باچا خان کے سچے پیروکار میاں افتخار حسین نے اپنے لہو لہو فرزند کو کفناتے ہوئے ادا کیا تھا۔ دونوں کے الفاظ ایک سے رہے

’ہم تشدد پہ یقین نہیں رکھتے‘

باچا خان کے فرزندون نے تماشا کیا۔ باچا خان کے فرزندوں نے کندھا نہیں دیا۔ باچا خان کے فرزند نعرائے تکبیر میں تو تھے جنازے کی تکبیر میں نہیں تھے۔ باچا خان کے فرزند دعا کے واسطے نہیں آئے۔ بہت ہی محترم افراسیاب خٹک صاحب اب تعزیت کو پہنچے بھی ہیں تو فراز یاد آگئے

اب تم آئے ہو مری جان تماشا کرنے
اب تو دریا میں تلاطم ہے نہ سکوں ہے، یوں ہے

کھدر پوش بوڑھے درویش کی محبت میں تغافل کے یہ سب پہلو نظر انداز کیے دیتے ہیں، مگر اس کا کیا کریں کہ اب جب ملزموں کی نشاندہی ہورہی ہے تو متحدہ دینی محاذ جیسی مذہبی انتہا پسند پارٹی اپنے نامزد کارکنوں کو بچا رہی ہے اور اے این پی اپنے کارکنوں کو چھڑا ری ہے۔ باچاخان کے خدائی خدمت گاروں نے اس فیصلہ کن موڑ پر خود کے لیے کس کردار کا انتخاب کیا ہے۔ یعنی کہ المیہ یہ ہوا کہ باچا خان نے اپنی بات جہاں چھوڑی تھی، پیروکار اس بات کو آگے تو کیا بڑھاتے، مشال خان کے قدموں میں دفنا کے آگئے۔

اعجاز منگی نے وہ بات کہہ دی ہے جو ہمارے دلوں میں تھی

آج محسوس ہو رہا ہے
وہ خاندان ختم ہو گیا!
وہ خاندان جس کا بیج
سرحد کی سوندھی مٹی میں
باچا خان نے بویا تھا!
پختونوں ہم سے گلے ملو
آج ہم تمہارے پاس
آنسوؤں کا پانی پینے آئے ہیں
آج ہم صرف تمہارے پاس
یہ بتانے آئے ہیں
وہ خاندان ختم ہوگیا
جو سیاست کے سرد موسم میں
پہاڑی چوٹیوں پر
ایک چراغ کی طرح جلاتھا
وہ چراغ بجھ گیا
مشعل کے سانسوں کے ساتھ!
ہم اس چیف منسٹر سے شکایت کیا کریں؟
جس کا رہنما پاکستان کا برگر لیڈر ہے
ہم اس برگد کے پیڑ کا پتہ پوچھنے آئیں ہیں
جو اس آندھی میں جڑ سے اکھڑ گیا
جو مردان کی ’’ولی خان یونیورسٹی‘‘ میں چلی!
اور اس میں گر گیا
ایک سرخ پھول
جو روندا گیا ’’امن کے اداس فلسفے‘‘ کی مانند!

اسفند! یارا مائنڈ مت کرنا
وہ ایک نوجوان کو نہیں
تمہارے خاندان کو پیٹ رہے تھے
دھرتی سے پوچھو
آکاش سے پوچھو
وہ لاش تمہارے خاندان کی تھی
وہ لاش باچا خان کی تھی
وہ لاش ولی خان کی تھی
وہ لاش غنی خان کی تھی!
وہ لاش ایک چیخ تھی
تمہاری مقتول تاریخ تھی
مشعل خان کے باپ نے
بیٹے کو نہیں
سرحدی گاندھی کے فلسفے کو دفن کیا ہے!

اسفند! یارا مائنڈ مت کرنا
آج تمہارا خاندان
اس بچے کے ساتھ
دفن ہوگیا
جس کے سر پر
سرخ ٹوپی تھی
جس کے ہاتھ میں
قلم تھا
وہ قلم
جو علم تھا
وہ مردان کی مٹی میں مدفون ہوگیا!

اسفند یارا!
تم تو جانتے ہو
آج اگر باچا خان زندہ ہوتا
وہ تاحیات بھوک ہڑتال کا اعلان کرتا
آج اگر ولی خان موجود ہوتا
وہ سیاست سے رٹائرمنٹ کا اعلان کرتا
آج اگر غنی خان جیتا ہوتا
وہ اس غم میں غرق ہوجاتا

اسفند یارا!
مائنڈ مت کرنا
مشعل مرگیا
اور تم زندہ ہو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).