لر و بر یو افغان ایک کھوکھلا نعرہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے


مشال کی موت المناک تھی وجوہات پر تحقیق جاری ہے۔ وقت گذرے گا حقائق سامنے آئیں گے۔ مشال کسی کا بیٹا بھی تھا وہ بھی ایک شاعر کا۔ اس کے والد اقبال شاعر قوم پرست حلقوں میں معروف ہیں۔ وہ کوئی گمنام آدمی نہیں ہیں۔ وہ بے مثال حوصلے کے ساتھ بات کرنے کیمرے کے سامنے آئے۔ نہ کسی پر الزام لگایا نہ ان کی آنکھ سے کوئی آنسو ٹپکا نہ انہوں نے کوئی ہلکی بات کی۔ جو صاحب اولاد ہیں جو سوچتے ہیں جن کا دل دھڑکتا ہے وہ دل پکڑ کر رہ گئے۔ اکثر نے نظریں چراتے ہوئے ٹی وی پر ان کی باتیں سنیں۔

اس سانحے پر اصل آواز سوشل میڈیا پر ہی اٹھائی گئی ہے۔ جس کے بعد اہم پاکستانی شخصیات بولنا شروع ہوئیں۔ عمران خان اور پرویز خٹک کا ردعمل مناسب اور بروقت تھا۔ وزیر اعظم دیر سے بولے ہیں ٹھیک بولے ہیں۔ مریم نواز نے مذمت کی ہے۔ مفتی نعیم نے کارروائی میں ملوث لوگوں پر بلاسفیمی کی دفعات کے تحت مقدمہ چلانے کا جرات مندانہ مطالبہ کیا ہے۔ مولانا سمیع الحق نے مذمت کی ہے۔ اب سپریم کورٹ نے نوٹس بھی لے لیا ہے۔

یہ سب ہوا ہے پر دیر ہوئی ہے۔ مشال کا جنازہ پڑھانے سے مقامی مولوی نے انکار کر دیا تھا۔ جس نے جنازہ پڑھایا اس کو بھی برا بھلا کہا گیا۔

افغان سفیر عمر زاخیل وال وہ شخص ہیں جنہوں نے اس موقع پر بروقت اقدام کیا۔ وہ افراسیاب خٹک کو ساتھ لے کر مظلوم باپ کے پاس پہنچے ہیں اس کو پرسا دیا ہے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہیں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ہم سے دیر ہوئی ہے۔ ہم صورتحال سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہم بروقت ردعمل ظاہر کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ ہم مظلوم کو پہچاننے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ مشال کے ساتھ جو ہوا وہ سب تو سامنے آ جائے گا۔ اس سانحے کے دوسرے رخ کو سمجھنے میں بھی ہم سے کوتاہی ہو گئی ہے۔

افغان سفیر عمر زاخیل وال، افراسیاب خٹک اور مشال خان کے والد اقبال صاحب

ایک باپ ہے جس پر کئی آسمان ٹوٹ پڑے ہیں۔ جس تحریک جس فکر سے اس کا تعلق ہے۔ اس کے فکری ساتھی اس کا غم بٹانے بھاری تعداد میں نہیں پہنچے۔ میاں افتخار پہلے دن ہی پہنچے ان کی شخصیت اور خدمات ایسی ہیں کہ انہیں اب ان کی پارٹی کا نمائندہ چہرہ سمجھا جاتا ہے۔ واقعہ بڑا ہے اس لیے ان کے پہنچنے کے باوجود کمی رہ گئی ہے۔ اے این پی کے اندرونی حلقوں میں زلزلے کی صورتحال ہے کہ ان کے اپنے سٹوڈنٹ ونگ کے لوگ بھی اس واقعے میں ملوث بتائے جا رہے ہیں۔

کچھ دن پہلے امریکیوں نے افغانستان میں سب سے ہولناک غیر ایٹمی بم برسایا۔ ایسے میں پاکستان میں افغان سفیر عمر زاخیل وال تھے جو بولے کہ اگر بڑے بموں سے امن ہوتا تو افغانستان ایک پرامن جگہ ہوتی۔ ہم افغانوں کو سادہ اور جاہل سمجھتے ہیں۔ ہم یہ بھول ہی جاتے ہیں کہ وہ صدیوں کا حکومتی تجربہ رکھتے ہیں۔ موقع شناسی کی بے مثال صلاحیت رکھتے ہیں۔ کرائسس میں کیسے حرکت میں آنا ہے، صورتحال کا فائدہ اٹھانا ہے، کس وقت کھڑے ہو کر دو ٹوک بات کرنی ہے، کب وقت کو اپنے حق میں استعمال کرنا ہے۔ ایسا کیا کرنا ہے کہ انہیں وقت گزرنے کے بعد کوئی کوتاہی کا طعنہ نہ دے سکے۔ افغان انٹیلیجینشیا یہ سب جانتی ہیں۔ یہ ساری صلاحیتیں ان کے خون میں شامل ہے۔

’لر و بر یو افغان‘ ایک نعرہ ہے جس کا آسانی سے سمجھ میں آنے والا ترجمہ یہی ہے کہ یہاں وہاں سب افغان ایک ہیں۔ یہ نعرہ جب محمود خان اچکزئی یا دوسرے قوم پرست حلقوں سے لگتا ہے تو ہمارے ہاں ماتھوں پر بل پڑ جاتے ہیں۔

عمر زاخیل وال نے صورتحال مطابق بالکل درست عمل کیا۔ جب پاکستانی پختون قوم پرست لیڈر بھی پیروں پر مہندی منہ پر ٹیپ لگائے بیٹھے تھے۔ افغان سفیر نے اپنے عمل سے ’لر و بر یو افغان‘ والے قول پر عمل کر دکھایا۔ انہوں نے سارے افغانوں کی نمائندگی کی جنہیں اب کوئی یہ طعنہ نہیں دیا جا سکے گا کہ ایک پختون شاعر ایک باپ جب اپنا غم اکیلا منا رہا تھا تو سرحد پار سے افغان اس کے دکھ میں شریک نہیں ہوئے۔

ہم صورتحال نہیں سمجھ سکے۔ ہمیں ماننا چاہیے کہ ہم تاریخ، رسم و رواج اور پختون ولی سب کو سمجھنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ افغان سفیر نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ ’لر و بر یو افغان‘ محض ایک کھوکھلا نعرہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi