مذمت ضرور کیجیے مگر احتیاط سے!


شروع شروع میں حیرانی بھی ہوتی تھی اور دقت بھی کہ ایسی لرزہ خیز واردات پر اظہارِ جذبات کیسے ہو۔ بالآخر ہم نے ایسی وارداتوں کے جھٹکوں سے دل و دماغ کو احساس جرم و ندامت سے بچانے کے لیے حرفوں کی ایک ڈھال ایجاد کر ہی لی جو اور کچھ نہ بھی کر سکے مگر ہمیں اگلی واردات ہونے تک بے حسی کے طعنے سے ضرور بچا لیتی ہے۔ ہم بہرحال حساس لوگ ہیں۔ تماشائی بننا منظور مگر بے حسی کا طعنہ برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ مضبوط ڈھال مندرجہ ذیل پائیدار فقروں سے تیار کی گئی ہے۔

اس اندوہناک واقعے پر پوری قوم افسردہ ہے۔ ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔

نہیں نہیں یہ کسی مسلمان کا کام نہیں ہو سکتا۔ یہ اسلام کا اصل پیغام مسخ کرنے کی سازش ہے۔

مجرموں کو عبرت ناک سزا دی جائے گی تاکہ آئندہ کسی کو اس طرح کی سفاکی کی جرات نہ ہوئی

توہینِ مذہب کے قانون کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ایک شرم ناک فعل ہے۔ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

علما معاشرے کو جنگل راج بننے سے روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

ریاست کفر پر قائم رہ سکتی ہے ظلم پر نہیں (حضرت علی)

یہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ اللہ ہمارے حال پر رحم فرما۔

آخر ہم کب جاگیں گے؟ آخر ہم کب تک جگ ہنسائی کا موقع دیتے رہیں گے؟

مردان کے سانحے پر دل خون کے آنسو رو رہا ہے (اس جملے میں ہر ایسی واردات کے بعد صرف مقام کا نام بدلنے سے کام چل جائے گا)

صوبائی حکومت نے رپورٹ طلب کر لی، ایک تحقیقاتی کمیشن بنا دیا گیا، سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے کر وفاق، صوبے اور آئی جی کو نوٹس جاری کر دیے۔

مذکورہ جملوں میں سے کوئی بھی ایک ہر واردات کے بعد فیس بک، ٹویٹر، پریس ریلیز میں ڈالیے اور سڑک پر آنے، جلسہ کرنے، دھرنا دینے، مقتول کی نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے، اس کے اہلِ خانہ سے تعزیت کرنے اور خوامخواہ نظروں میں آنے سے مکت ہو جائیے۔

اگر ضمیر پھر بھی کچوکے لگانے سے باز نہ آئے تو رات کو کسی ٹاک شو میں جا کر وحشت و بربریت کے خلاف بھاشن دیجیے، ریاستی رٹ کی کمزوری کا ماتم کیجیے، عدالتی بوالعجبیوں کا رونا ڈالیے اینکر اگر بہت ہی چمٹ جائے تو کوئی گول مول سا حل بھی پیش کر دیجیے اور جان چھڑا کے گھر کی راہ لیجیے۔

اور معزز پارلیمانی ارکان اگر معترضین کا منہ بند کرنا چاہیں تو قانون کے ناجائز استعمال کو روکنے کے طریقوں پر غور کرنے کی بجائے مرنے والے کو ایک سورہ فاتحہ ارسال کرنا کافی ہے یوں ایوان کے ریکارڈ میں حاضری بھی لگ جائی گی اور کہنے کو بھی رہ جائے گا کہ ہمارا ایسی وارداتوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔

چینلز اگر یہ ثابت کرنا چاہیں کہ وہ بھی بلا خوف ذمہ دار صحافت کر رہے ہیں تو مقتول کے جنازے کی فوٹیج، ایک دو شرکا کی ساؤنڈ بائیٹس اور مقتول کے باپ، چچا، بہن یا ماں سے بس یہ سوال پوچھنا کافی ہے کہ اس وقت آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟ اور پھر یہ نیوز پیکیج وائلن کی اداس دھن مکس کر کے نشر کر دیجیے۔ لیجیے آپ اپنےفرائضِ منصبی اور تحقیقاتی رپورٹنگ کے کشٹ سے کتنے سستے میں چھوٹ گئے۔

(خبردار: کوئی سیاستدان، وزیر، لکھاری، اینکر، ٹاک شو مہمان ایسے حساس معاملات میں پہلے ہوا کا رخ دیکھے پھر فیصلہ کرے کہ اسے مذمتی حکمتِ عملی برتنی ہے یا احتیاطی۔ جان ہے تو جہان ہے۔ )

جب ہم نے خود کو احساسِ ندامت سے بچانے کے لیے ملامتی حروف کی موثر ڈھال بنا ہی لی ہے تو پھر کابینہ، پارلیمنٹ، اسلامی نظریاتی کونسل یا ٹی وی سٹوڈیو میں یہ بحث کروانے کا رسک بھی کیوں لیا جائے کہ جیسے توہین ِ مذہب کی سزا موت ہے اسی طرح بہتان کے ہتھیار سے کسی کی جان لے کر مذہبی تعلیمات کی توہین پر عبرت ناک سزا کا قانون بنانے میں آخر کیا اور کون رکاوٹ ہے؟

کیا تاریخ میں کسی ایسے خوش قسمت شتر مرغ کا بھی تذکرہ ہے جسے ریت میں سر چھپانے کی ترکیب نے بچا لیا ہو؟

عیشِ امید ہی سے خطرہ ہے
دل کو اب دل دہی سے خطرہ ہے
ہے عجب کچھ معاملہ درپیش
عقل کو آگہی سے خطرہ ہے
میں کہوں کس طرح یہ بات اس سے
تجھ کو جانم مجھی سے خطرہ ہے
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
( جون ایلیا )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).