اب یہاں کوئی محفوظ نہیں


مشعال کی اندوہناک موت نے نہ صرف اس کے خاندان کو متاثر کیا ہے بلکہ پاکستان میں ہردرد دل رکھنے والے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس ظلم نے کربلا کے بعد ایک اور کربلا کہ یاد تازہ کردی۔ ابھی تو لوگوں کی یادوں سے سیالکوٹ کے دو بھائی نہیں نکلے تھے کہ اس سانحہ نے اس غم کو پھر سے تازہ کردیا۔ اس واقعہ نے بہت سی مائوں کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ اپنے بچوں کو بچا کر کس دنیا میں لے کر چلی جائیں جہاں امن ہو سکون ہو ان کو جوان لاشے نہ اٹھانے پڑیں۔ ہمارے جیسے پاکستان سے بہت محبت کرنے والے لوگوں کو لگا کہ اب یہ ملک رہنے کے قابل نہیں رہا۔ ہر شخص ایک خوف کا شکار ہے ۔ہر کوئی سوشل میڈیا پر وضاحتیں دیتا پھر رہا ہے کہ میرا ایک ہی اکائونٹ ہےمجھ سے منسوب اگر کوئی دوسرا اکاؤنٹ ملے تو وہ جعلی ہے۔

اس واقعہ کے بعد بہت سے لوگوں نے سیاست دانوں پر تنقید کی۔ نوازشریف ،عمران خان سے پوچھا گیا کہ وہ کہاں ہیں مذمت کیوں نہیں کرتے نوٹس کیوں نہیں لیتے۔ مذمت بھی ہوگئی نوٹس بھی لے لیا گیا۔ کارروائی بھی ہو گی۔ برسوں مقدمہ بھی چلے گا سزا بھی ہوجائے گی اس کے بعد کیا ہو گا؟ کیا اس کے بعد اس طرح کا واقعہ نہیں رونما ہ وگا؟ جناب ہو گا ضرور ہو گا۔ جس ملک میں وزیراعظم ہولی کے تہوار میں جائے اور کہہ دے کہ خدا سب کا ہے ہم اللہ کہتے ہیں آپ بھگوان کہتے ہیں۔اس پر کفر کے فتوی لگ جاتے ہیں۔ ٹی وی پر پورا پروگرام ہوتا ہے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس طرح کا وزیراعظم ہماری نظریاتی حفاظت نہیں کرسکتا۔ انڈیا کے ساتھ امن کی بات کر دے تو مودی کا یار غدار اس طرح کے القابات سے نوازا جاتا ہے۔

جس ملک میں اپوزیشن کا پاپولر لیڈر جس نے 80 لاکھ ووٹ لئے ہیں جس کے جلسے میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے منہ سے نکلنے والے ایک نادانستہ لفظ پر قتل کی دھمکیاں ملنی شروع ہوجائے اور اس کو پورے میڈیا کے سامنے معافی مانگ کر ثابت کرنا پڑے کہ میں نے گستاخی نہیں کی نادانستگی میں ہونے والی غلطی ہے۔ میں آپ سے زیادہ نبی صلی علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔ جس ملک میں پاکستان کے سب سے طاقتور عہدےدار کے ایمان کو مشکوک بنا دیا جائے اور اس کو میلاد کروا کے بتانا پڑے کہ میں مسلمان ہوں۔ اس ملک میں ایک مشعال کے قاتل کو سزا دینے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

مذہب ایسا ہتھیار بن گیا ہے جس کہ سامنے ہر دلیل بے بس ہوجاتی ہے۔ ہر آواز حلق میں اٹک جاتی ہے آپ چیختے رہ جاتے ہو کہ کوئی ثبوت ہے تو دکھا دو۔ اگر وہ گناہ گار بھی ہے تو عدالت میں لے جاو لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کہاں سنائی دیتی ہے۔ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد بھی ایسا ہی خوفزدہ ماحول بن گیا تھا۔ اس ماحول میں ہمارے ایک میڈیا کے کولیگ جو کہ اقلیت سے تعلق رکھتے تھے کہنے لگے کہ میری امی بڑی پریشان ہے اس نے آج خاص طور پر نصیحت کر کے بھیجا کہ بیٹا کسی سے بحث نہ کرنا۔ اس طرح کے ماحول میں، خوف کی فضا میں تندرست دماغ کہاں سے ملیں گے۔ نظام میں بہتری کیسے آئے گی۔ جہاں معاش کی فکر کے ساتھ جان کی فکر بھی لاحق ہو تو وہاں سے بہترین دماغ دوسرے ملک ہی جائیں گے۔

بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر تو ہم بہت واویلا کرتے ہیں۔ روز لعنت ملامت ہوتی ہے۔ اس بات پر شکر ادا ہوتا ہے کہ ہم آزاد ملک کے باسی ہے۔ جناب وہ تو ہندو ہیں بقول آپ کے ازلی دشمن یہاں جو مسلمان مسلمان کو مار رہا ہے وہ؟ مرنے والا بھی مسلمان اور مارنے والا بھی مسلمان اور دونوں اپنے اپنے ایمان میں پختہ۔ جب مشعال جیسے نوجوان ایسی اندوہناک موت کا شکار ہونگے تو ان کو اس آزادی سے کیا لینا دینا۔ مرنا تو یہاں بھی ہے مرنا وہاں بھی ہے وہاں مرتے ہوئے شاید اتنا افسوس نہ ہو۔

مسئلہ آپ کےساتھ نہیں اس نظام کے ساتھ ہے جب اس ملک کو ایک تجربہ گاہ بنادیا جائے گا کہ کبھی کوئی آمر آکر ہمیں بتائے گا کہ یہ عوام اس قابل نہیں کہ براہ راست لوگوں کا انتخاب کر سکیں، ان کو بنیادی جمہوریت کا نظام دے دو۔ پھر بعد میں آنے والا ایک آمر سمجھتا ہے کہ نہیں جمہوریت کی ضرورت نہیں ایک خالص اسلامی نظام دے دو جس میں جہاد ہر پاکستانی پر فرض ہوجاتا ہے۔ پھر ایک روشن خیال جرنیل آجاتا ہے اس کو لگتا ہے نہیں یہ جہادی نہیں یہ تو دہشت گرد ہیں۔ اسلام کا ایک جدید رخ لوگوں کے سامنے پیش کرو۔ تو اس کے بعد سوائے شناخت کے مسئلہ کے اور کیا رہ جاتا ہے۔ حقیقی اسلام کا چودہ سو سال پہلے تعین ہوگیا تھا۔ آپ آکر لوگوں کو نئے رخ سے روشناس نہ کروائیں۔ آپ لوگوں کو اپنے راستوں کا تعین خود کرنے دیں۔ شناخت کے اسی مسئلہ نے ابھی تک لوگوں کی سوچ کو پنپنے نہیں دیا۔

اپنی اپنی مرضی کا اسلام دکھا دکھا کر اسلام کا اصل چہرہ ہی بگاڑ دیا گیا ہے۔اسلام حکمرانوں کے ہاتھوں کا ایسا ہتھیار بن گیا ہے جو اب ہر بچے بچے کے ہاتھ میں آگیا ہے۔ اس ہتھیار نے دلیل کی بحث کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی صرف گولی اور گالی ہی جواب رہ گیا ہے۔آپ لوگوں پر اپنا اسلام نہ تھونپیں ان کو خود سوچنے دیں تلاش کرنے دیں۔ جب تلاش کا، دریافت کا، عمل مکمل ہوگا تو اس سے ایک نتھرا ہوا معاشرہ نکلے گا جو کم ازکم بحث کی گنجائش اپنے اندر پیدا کرئے گا۔ جس میں تحمل اور برادشت کی قوت ہوگی۔جو جلائو،گھیراو کے بیانیہ سے دور ہو گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو مشعال جیسے نوجوان روز مرتے رہے گئے بوڑھے باپ جوان لاشے اٹھاتے رہیں گے۔ اور آپ کسی جگہ بیٹھ کر یہ نہیں کہہ سکیں گے اگر ہم کو آزادی نہ ملتی تو ہم بھی ہندوستان میں عبرت ناک موت مر رہے ہوتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).