مختار مسعود – جواہر ریزے


  1926 میں پیدا ہو نے والے مختار مسعود علی گڑھ سے تعلیم یافتہ تھے۔ اردو زبان کے سااحب طرز نثر نگار، سفر ںصیب، آواز دوست اور لوح ایام کے مصنف تھے۔

 ان کی کتابوں سے کچھ اقتباسات

 ‘غلامی کی بہت سی قسمیں اور طرح طرح کی شکلیں ہُوا کرتی ہیں۔ گمراہی غلامی کی بدترین صورت ہے۔ اگر آزاد ہونے کے بعد بھی صحیح راستہ کا پتہ نہ چلے اور اگر چلے لیکن اس پر چلنے کی ہمت نہ ہو تو یہ صورت غلامی سے بدرجہا بد تر ہوتی ہے۔”

٭٭٭  ٭٭٭

اس براعظم میں عالمگیری مسجد کے میناروں کے بعد جو پہلا اہم مینار مکمل ہوا، وہ مینار پاکستان ہے۔ یوں تو مسجد اور مینار آمنے سامنے ہیں لیکن ان کے درمیان یہ ذرا سی مسافت تین صدیوں پر محیط ہے، جس میں سکھوں کا گردوارہ، ہندوؤں کا مندر اور فرنگیوں کا پڑاؤ شامل ہیں۔ میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا ان گمشدہ صدیوں کا ماتم کر رہا تھا کہ مسجد کے مینار نے جھک کر میرے کان میں راز کی ایک بات کہہ دی:

’’جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہو جائیں، جب حق کی جگہ حکایت اور جہاد کی جگہ جمود لےلے، جب ملک کی بجائے مفاد اور ملت کی بجائے مصلحت عزیز ہو، اور جب مسلمانوں کو موت سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہو جائے، تو صدیاں یونہی گم ہو جایا کرتی ہیں۔“

٭٭٭  ٭٭٭

’’جن دنوں میں ملازمت کی تربیت ختم کرنے کے بعد لائل پور میں تعینات ہوا مس جناح وہاں تشریف لائیں، دو چار دن رہنے کے بعد انہیں لاہور جانا تھا۔ گورنر پنجاب نے اس سفر کے لیے اپنی موٹر بھیجی تھی۔ مجھے حکم ملا کہ افسر مہمانداری کے خوشگوار فرائض ادا کرتے ہوئے میں لائل پور سے لاہور تک ان کے ساتھ اس موٹر میں سفر کروں۔

مس جناح نے راستے میں بہت سی باتیں کیں اور اکثر صاف اور کھری باتیں‌ تھیں۔ مس جناح نے بتایا کہ قائداعظم نے لیاقت علی خاں کی سوجھ بوجھ پر لیاقت ڈیسائی پیکٹ کے بعد بھروسہ نہ کیا اور اگر وقت اور واقعات کی رفتار اتنی تیز نہ ہوتی تو وہ ضرور کسی اور شخص کو ان کی جگہ دے دیتے۔ محترمہ نے یہ بھی کہا کہ ہیکٹر بولیتھو کو قائداعظم کی سوانح عمری لکھنے کے لیے منتخب کیا گیا تاکہ وہ لیاقت علی خان کے کام کو بڑھا کر پیش کرے۔

جب ہیکٹر بولتھیو کی کتاب اس گفتگو کے چار سال بعد چھپ کر آئی تو میں نے اس کی ایک جلد خاص طور پر کراچی سے منگائی اور یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ مس فاطمہ جناح کے خدشات بالکل درست تھے۔ اس کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستان کی قسمت کا فیصلہ بڑی حد تک جولائی 1933ء میں اس روز ہوگیا تھا جب لیاقت علی خاں ہیمسٹیڈ ہیتھ گئے تاکہ جلاوطن جناح سے گفتگو کریں۔ یہی نہیں بلکہ اس کتاب میں بیگم رعنا لیاقت کے ذکر کے ساتھ یہ اشارہ بھی ہے کہ قائداعظم اپنے خط میں لیاقت علی خان کو لکھا کرتے تھے کہ میرا دل تم دونوں کے ساتھ ہے۔ لطف یہ ہے کہ اس کتاب کے پانچویں باب میں بیگم لیاقت کی زبانی اس خیال کو بھی غلط ثابت کیا گیا ہے کہ اگر قائداعظم کو حالات فرصت دیتے تو وہ لیاقت علی خان کو علیحدہ کر دیتے۔ بیگم لیاقت اس مفروضے کو مہمل قرار دیتی ہے۔ ممکن ہے یہ سچ ہو، مگر مجھے بولتھو کی ساری کتاب ہی مہمل معلوم ہونے لگی۔“

٭٭٭ ٭٭٭

میں فلسطین کا حشر دیکھ کر پاکستان کے بارے میں پریشان ہوجاتا ہوں۔ جو قومیں اپنی ترجیحات متعین نہیں کرتیں اور اپنی روایات کی حفاظت کرنے کے بجائے کھیل کود اور ہنسی مذاق کو آزادی کا حاصل سمجھ لیتی ہیں ان سے سرزمین کا حق ملکیت، ان کی حکومت سے حق حکمرانی اور بالآخر لوگوں سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا جاتا ہے۔

٭٭٭ ٭٭٭

۔۔۔۔ کہتے ہیں ایک خاندان میں چینی کا ایک قیمتی اور قدیمی گلدان ہوا کرتا تھا۔ ایک لا ابالی نوجوان نے بوڑھے جد سے اس کی اہمیت کے بارے پوچھا، جواب ملا کہ وہ نسلوں سے خاندان میں سب سے قیمتی ورثہ کی حیثیت سے محفوظ چلا آرہا ہے اور خاندان کے ہر فرد اور نسل کا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کرے۔ نوجوان نے کہا: اب اس کی حفاظت کا تردد ختم ہوا، کیونکہ چینی کا وہ گلدان موجودہ نسل کے ہاتھ سے پھسل کر فرش پر گرا اور چکنا چور ہو گیا۔

 بو ڑھا بولا: ’’حفاظت کا تردد ختم ہوا، ندامت کا دور کبھی ختم نہ ہوگا۔‘‘

 ٭٭٭ ٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).