پہلے عاطف اور اب مشال کے قتل کی ذمہ دار انتظامیہ ہے


میرا یونیورسٹی کا ایک ہم جماعت تھا عاطف۔ ہمارے زمانے میں شعبہ فنون لطیفہ کا ماحول زیادہ تنگ نظر نہیں تھا اس لئے ہم لڑکے لڑکیاں آپس میں بے تکلفی سے بات چیت کر لیتے تھے۔ عاطف سے میری بہت اچھی بات چیت اور کسی حد تک دوستی بھی تھی۔ وہ بہت غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور اس کے دونوں والدین سننے اور بولنے کی صلاحیت سے محروم تھے۔ عاطف کے والد ایک سائن بورڈ پینٹر تھے اور ان کی تمام امیدوں کا مرکز اور محور عاطف تھا جو ایک اچھے ادارے میں پڑھ رہا تھا۔ عاطف کو تخلیقی صلاحیتیں یقینا انہی سے ورثے میں ملی تھیں۔ پڑھائی ختم ہونے کے بعد عاطف کو ایک ٹی وی چینل میں بہت اچھی ملازمت مل گئی۔ گھر میں معاشی خوشحالی آ گئی۔ عاطف کی منگنی بھی ہو گئی اور شادی کی تاریخ بھی مقرر ہو گئی۔

2009ء میں وہ اپنے تین دوستوں کے ہمراہ گلگت سے ہنزہ جا رہا تھا۔ رات کے اندھیرے میں یہ چار دوست اپنی گاڑی میں گلگت سے ہنزہ کو ملانے والے پل پر چڑھے تویہ لوگ اس بات سے واقف نہ تھے کہ آدھا پل تو موجود تھا جو کہ ان کی نظروں کے سامنے تھا مگر اس سے آگے پل کا عین وسط سے درمیانی حصہ ہی غائب تھا۔ ان کی کار اس پل سے 135 فٹ نیچے دریا میں جا گری ، دو دوستوں کی موقع پر وفات ہو گئی مگر اتنی بلندی سے گرنے کے بعد بھی عاطف اور اس کا دوست عمر زندہ بچ گئے۔ عمر کو بچا لیا گیا مگر عاطف تند و تیز موجوں کی نذرہو گیا۔ ایک ماہ تک اس کی تلاش جاری رہی۔ میں خود اس وقت تک ماں بن چکی تھی اورمیرے دل میں مزید حساسیت پیدا ہو چکی تھی۔

عمر شاہ سے لوگوں کی بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ باہر نکلنے تک عاطف سے ان کی بات چیت ہوئی اور عاطف زندہ تھا۔ ہم تمام ہم جماعت ہر روز صرف اور صرف عاطف کی بات کرتے تھے اور اس کی سلامتی کی دعا کرتے تھے۔ کچھ عرصے بعد دریا کے کنارے سے عاطف کی گلی سڑی لاش برآمد ہوئی۔ یہ زندگی کی پہلی موت تھی جس کو میں نے کھلی آنکھوں سے اور اس شدت سے محسوس کیا۔ عاطف کیسے گاڑی سے باہر نکلا ہو گا؟ دریا کی سرد لہروں میں، تاریک اندھیرے میں وہ پتھروں سے کیسے ٹکرایا ہو گا؟ دریا کی موجوںکے تھپیڑوں نے اسے کیسے ادھر ادھر پٹخا ہو گا؟ اس کے ذہن میں آخری خیالات کیا ہوں گے؟ کیا وہ اپنے بوڑھے باپ اور ماں کا سوچ رہا ہو گا یا کہ اپنی منگیتر کا؟ بے حس ہو جانے سے پہلے اس نے کتنی اذیت اور تکلیف محسوس کی ہو گی؟

اس واقعے کے کچھ عرصے بعد مجھے ناران جانے کا اتفاق ہوا تو دریائے کنہار کی بپھری ہوئی تندو تیز موجوں کو دیکھ کر، جو پتھروں سے ٹکراتی تھیں مجھے عاطف کی لاش دکھائی دیتی رہی جو تند و تیز دریا میں ایسے ہی پانی کی نذرہوئی تھی۔ اس کے مرنے کے بعد بہت سے لوگوں نے صدا بلند کی کہ یہ تین اموات اور یہ بھیانک حادثہ صرف انتظامیہ کی غفلت اور لا پرواہی کی وجہ سے رونما ہوا۔

اب مشال خان کی موت ایک دوسرا ایسا واقعہ ہے جس نے مجھے اندر تک جھنجھوڑ دیا ہے، جس پر میرے آنسو نہیں تھمے۔ جس کی تکلیف کی شدت کو میں نے اسی شدت سے محسوس کیا ہے۔ جس کی جان کنی سے پہلے کی سوچوں اور خیالات کے بارے میں ،میں نے اسی کرب سے سوچا ہے۔ مجھے عاطف کی موت اور اس واقعے میں بے حد مماثلت محسوس ہوتی ہے۔ مگر اب کے یہ ٹوٹا ہوا پل ایسا نہیں جو صرف ایک مخصوص علاقے تک محدود ہے،مجھے تو لگ رہا ہے کہ یہ ان دیکھا پل اب تو کسی بھی جگہ پایا جا سکتا ہے۔ اب کے تند وتیز تھپیڑے ایک بے جان دریا کی لہروں کے نہیں تھے بلکہ ایک ایسے ہجوم کے تھے جن کی سوچوں کو باقاعدہ طور سے تحریک دے کر اس شدت تک لایا گیا ہے۔ اب کے نشتر کی طرح چبھنے والے پتھر وہ دریا کے بے جان منجمد پتھر نہ تھے بلکہ پتھر جیسے بے حس انسان تھے۔
اب بھی نتیجہ وہی نکلا ہے کہ وجہ انتظامیہ کی غفلت اور لاپرواہی ہے۔ اب بھی مرنے کے بعد اس کی لاش کی تلاش اور اس کی موت کی وجہ کے تعین کی تلاش اسی شد ومد سے کی جا رہی ہے۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim