بات کرنا اب ممکن نہیں


مہینوں سے ریاست ،وزیرداخلہ ،حکومتی وزرا اور چند دانشوروں نے کہرام مچا رکھا تھا سوشل میڈیا پر توہین رسالت،گستاخانہ مواد کی اشاعت کا۔ نہ صرف باہمی روابط کی ویب سائٹس کو بند کرنے کی بات کی گئی، اظہار رائے کرنے والوں کو اغوا بھی کیا گیا، مختلف ممالک کے سفرا کے اجلاس بھی کیے گئے، فیس بک انتظامیہ سے احتجاج بھی کیا گیا۔ خبریں، تجزیے، ٹاک شوز خوب دھوم دھام سے کیے گئے۔

ریاست نے مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا تو حکومت نے بھی انتہا پسندوں کو تھپکی دی۔ مذہب کو سرعام بیچا گیا۔ افسوس سیاسی محاذ پر کسی نے مخالفت کی نہ نظریاتی۔ سب خاموش رہے۔ نتیجہ اس گورکھ دھندے کا کچھ تو آنا تھا سو آگیا۔ جب آپ نے ماحول کو اس قدر گرمادیا، جذبات کو بھڑکادیا، ذرائع ابلاغ پر بھرپور پیغام رسانی بھی کردی تو اب انتظار کسی مشال خان ہی کا کرنا تھا۔ مشال نشانہ بن گیا۔ کانٹے بو کر پھولوں کی فصل تو کاٹی نہیں جا سکتی۔

ثابت ہوا بات کرنا اب ممکن نہیں، سانسیں لینابھی نہیں، جینا بھی نہیں حتیٰ کہ عزت سے مر جانا بھی اب ممکن نہیں رہا۔ بچپن میں نبیؐ پاک کے یوم پیدائش پر تقریر کی تو عربوں کی جہالت کا نقشہ خوب کھینچا، جذباتی جملے اس وقت جوشیلے انداز میں بیان تو کردیتا مگر اکثر سمجھ سے بالاتر ہوتے۔ پھر کچھ سمجھ آنے لگی تو سوچنا شروع کیا اور دماغ چکراگیا۔

آج بھی سوال کا جواب مجھے نہیں مل سکا۔ تو یہ سوال اہل دانش کی نذر۔ اہل دانش جو کہ فتوے دیا کرتے ہیں، فیصلے کیا کرتے ہیں، فیصلے جینے مرنے کے۔ اہل دانش جو لکھنے اور بولنے کے ہنر میں یکتا ہیں۔ جن کے کالم ،مضامین اسلام کے خلاف یہود یوں کی سازشوں سے بھرے پڑے ہیں۔ وہی دانشور جنہیں ہمارے درمیان چھپے مغربی ایجنٹوں کا علم ہوجاتا ہے۔

میرا سوال اس وزیرداخلہ سے ہے جس نے مذہب کی آگ کو خوب ہوا دی، شدت پسندوں کی پشت پناہی میں نہ صرف دن رات ایک کیے بلکہ سوشل میڈیا پر پابندی تک کا کئی مرتبہ عندیہ دیا۔

سنا ہے دنیا جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ بات بات پر جھگڑے ہوجاتے جو کہ نسل در نسل جاری رہتے۔ بچیاں پیدا ہوتیں تو زندہ درگور کردیا جاتا۔ انسانوں کی خریدو فروخت ہوتی۔ جھوٹ دبا کر بولا جاتا۔ قافلوں کو لوٹ لیا جاتا۔وغیرہ وغیرہ

اسلام آیا اور دنیا کی کایا پلٹ دی۔ اندھیرے نور سے چھٹ گئے۔ عوام کو جینے کا سلیقہ سکھا دیا گیا، مساوات کا نظام قائم ہوگیا۔ وغیرہ وغیرہ

آج صدیوں بعد میں آپ سے سوال کرتا ہوں۔

کیا ہمارے یہاں بچیوں کو درگور نہیں کردیا جاتا؟ نئی نویلی دلہنوں کو سر عام آگ نہیں لگا دی جاتی، تیزاب سے جھلسانہیں دیا جاتا۔ ہماری ہی بہنوں پر چاقووں سے وار کرکے ان کو تڑپنے کیلئے سر محلہ چھوڑ نہیں دیا جاتا؟ کیا آج بھی ہم بچی پیدا کرنے پر ماں اور بچی کو موت کے گھاٹ نہیں اتاردیتے۔
کیا جھگڑے اب بھی نہیں ہوتے؟ وہی جھگڑے نسلوں تک نہیں چلتے؟ خاندانوں پر عدالتوں میں حملے نہیں ہوتے؟ نسلوں کی نسلیں مٹا نہیں دی جاتیں؟

کیا اب بھی جھوٹ نہیں بولا جاتا؟ جھوٹا الزام لگا کر موت کے گھاٹ نہیں اتاردیا جاتا؟ کیا قتل کی سازش آج نہیں ہوتی؟ توہین مذہب کا الزم آج نہیں لگایا جاتا؟

کیا چوری چکاری،ملاوٹ سے ہم پاک ہوگئے؟ دودھ ، شہد، گھی، یہاں تک کہ مرچ تو خالص میسر نہیں۔ کیا ہمارے بچوں کی رگوں میں خالص دودھ دوڑتا ہے؟

کیا بتوں کو آج بھی نہیں پوجا جاتا؟ زمینی خداﺅں کی پرستش بند کردی ہم نے؟ خوشامد جیسی لعنت سے ہم پاک ہوئے؟

بد فعلی بد کرداری کیا دم توڑ گئی؟ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرکے ان کو موت کے گھاٹ نہیں اتاردیا جاتا؟ کیا مائیں اپنے لخت جگر کی لاش گلے لگاکر نہیں تڑپتی؟

میں آپ سب سے سوال کرتا ہوں؟ انصار عباسی سے ،اوریا مقبول سے ،چوہدری نثار سے،ریاستی اداروں سے سوال کرتا ہوں؟ کیا ہم اسلامی مملکت ہیں؟ اگر ہیں تو کیا یہ اسلام ہے؟

چلیں بحث سے بچنے کے لیے تسلیم کرتے ہیں، وہ شخص گستاخ تھا۔ وہ گناہ کا مرتکب ہوا تھا۔ تو بھی اس کا فیصلہ، سزا کا تعین اور عمل درآمد کیا اس طرح سے ہونا تھا؟

یہی با غیرت و ایمان عوام پاناما کیس کا فیصلہ، ڈان لیکس کا فیصلہ کرکے سنگین جرائم کے مرتکب افراد کو سزا کیوں نہیں دے دیتے؟ اس وقت جذبات اور قوت ایمانی کہاں چلی جاتی ہے؟

یہی ایمان کی حرارت، غصہ اور ولولہ کہاں ہوتا ہے جب کوئی سیاستدان گھنٹوں پروٹوکول کے لیے سڑک بند کروادیتا ہے اور عوام خاموشی سے کھڑے رہتے ہیں یہاں تک کہ مریض ایمبولینسوں میں دم توڑ جاتے ہیں اور مائیں رکشوں میں بچے جنتی ہیں۔ کبھی آج تک نہ سنا ،نہ دیکھا کہ فلاں سیاستدان کا پروٹوکول جارہا تھا کہ ایمان افروز غیور عوام نے ظلم کیخلاف متحد ہوکر سڑک کھلوادی۔ کسی وی آئی پی کوسکیورٹی کے قافلے سمیت روک لیا۔ یا کسی اور مسئلے پر اس قدر اشتعال کا مظاہرہ کیا ہو؟ اس وقت یہ دلیری کہاں چلی جاتی ہے؟

حضور معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ جتنا بتایا ،دکھایا اور سنایا جاتا ہے۔ چلئے آپ کو آج قتل کی سیدھی سادی ترکیب دیے چلتا ہوں۔

ایک شکار ڈھونڈیں، کوشش کیجیے ذرا سا منہ پھٹ، غصیلا اور جوشیلا ہو۔ ذرا سا آزاد خیال ہو۔ اگر نہ بھی تو چلے گا۔

اب اس شخص کو مشتعل کریں۔ مشتعل نہ بھی ہو تو خیر ہے۔ اس کے متعلق جھوٹی افواہیں پھیلا کر اپنے ہم خیال لوگوں کو مشتعل کر دیں۔ باقی کام تمام وہ کر دیں گے۔

نہ گولی چلی، نہ ہی ایف آئی آرکٹی۔ آپ کا قتل کا حلال منصوبہ بھی تیار!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).