توہین رسالت کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ پھر قتل کا ذمہ دار کون؟


(سید احسن وارثی)۔

پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل بے بنیاد الزامات کی آڑ لے کر لوگوں کی جانب سے انتہاپسندانہ اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جس سے پاکستان میں جنگل کا قانون سا دکھائی دیتا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ۔ مردان میں ولی خان یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے ایک طالب علم مشال خان کو 13 اپریل 2017 کو یونیورسٹی کے طلباء کی جانب سے توہین رسالت کا الزام لگا کر بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر سرعام قتل کردیا گیا اور اس کے تشدد کی ویڈیو اس طرح وائرل کی گئی جیسے انتہا پسند طالبعلموں نے ایک نہتے نوجوان کو قتل کرکے کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہو۔

پاکستان میں توہین رسالت کے الزام میں بنا کسی ثبوت کے کسی انسان کو قتل کردینے کا واقع کوئی پہلا واقع نہیں۔ مشال سے قبل نہ جانے کتنے ہی لوگ اس الزام کی زد میں قتل کردیے گئے ہیں۔ چند سال قبل جنوبی پنجاب کے ضلع بھکر میں ایک ٹیچر پر مذہبی عقائد کی توہین کا الزام لگاکر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ صوبہ سندھ کے ضلع دادو کے علاقہ سیتا ولیج میں قرآن کی بے حرمتی کرنے کے مبینہ الزام پر ایک شخص کو تشدد سے ہلاک کردیا گیا اور پیڑول چھڑک کر آگ لگادی گئی۔ اسی طرح 2013 میں لاہور کے بادامی باغ میں جوزف کالونی مسیح برادری کی بستی بھی اسی الزام میں تباہ کردی گئی تھی۔ سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق گزشتہ 27 سالوں میں اب تک توہین مذہب اور توہین رسالت کے الزام میں 65 افراد کو قتل کیا جا چکا ہے ۔

توہین رسالت کے الزام میں قتل ہونے والے مردان کے طالب علم مشال خان کے حوالے سے کے پی کے وزیراعلی اور دیگر انتظامیہ کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ اب تک ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے ثابت ہو کہ مشال نے کسی بھی قسم کی توہین رسالت یا توہین مذہب کی ہو ۔

ایک الزام کی بنیاد پر ایک پھول بنا کھلے مرجھا دیا گیا۔ ذمہ دار کون؟

ایک نوجوان طالب علم کو مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ یونیورسٹی انتظامیہ۔ اور پولیس کہا تھی؟ یونیورسٹی میں کس کی سرپرستی میں دیگر طلباء نے مشال خان کو تشدد کا نشانہ بنایا؟ مشال خان کے قتل کی تحقیقات میں یونیورسٹی کے چانسلر سے لے کر چوکیدار تک سب کو شامل تفتیش کیا جانا چاہیے ۔

مشال کی ہلاکت کے بعد بعض انتہا پسند سوچ رکھنے والے عناصر کی جانب سے نماز جنازہ میں شرکت کرنے سے روکنے کے اعلانات کرنے اور نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کرنے جیسے اقدامات قابل مذمت ہیں۔

توہین مذہب اور توہین رسالت پر بنا کسی ثبوت و شواہد کے کسی بھی شخص کو قتل کرنے والے پُرہجوم لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم جس کی محبت میں یہ سب کررہے ہیں کیا یہ اُس پیغمبرﷺ کی تعلیمات کے برعکس نہیں۔؟

چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار صاحب کی جانب سے مشال خان کے قتل پر سوموٹو ایکشن لے لیا گیا ہے۔ وزیراعظم صاحب اور دیگر کی جانب سے بھی انصاف کی فراہمی کے لیے اقدامات کرنے جیسے بیانات سامنے آئے ہیں اور اب اس پر کتنا عمل درآمد ہوتا ہے اور کتنے مجرم پکڑے جاتے ہیں یہ تو وہ وقت ہی بتائیگا۔ ہم بس دعا کرسکتے ہیں کہ اے اللہ مشال کے والدین کو صبرجمیل عطا فرما۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پاکستان کی موجودہ صورتحال میں دعا گو ہوں کہ اے اللہ پاکستان کے مزید نوجوانوں کو اس طرح انسانیت کی تذلیل سے بچا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آمین ۔

پاکستان جس طرح سے الزام تراشی پر لوگوں کو قتل کرنے کا جو ٹرینڈ چل پڑا ہے اس کے نتائج بہت خوفناک ہوسکتے ہیں اس پر قابو پانے کے لیے جتنی جلدی اقدامات کیے جائیں گے اتنا ہی کم نقصان اٹھانا پڑے گا۔

پاکستان میں آپریشن ردالفساد جاری ہے جس کا سب سے اہم مقصد ہی تمام فساد کی جڑوں کو ختم کرنا ہے تو وقت کا تقاضا ہے کہ انتہا پسندانہ سوچ پیدا کرنے والوں کے خلاف بھی سخت ایکشن لیا جائے جو انتہا پسندانہ سوچ کو فروغ دے رہے ہیں یا پروان چڑھارہے ہیں۔ ایسے عناصر کے خلاف سحت ترین ایکشن لیا جانا چاہیے جو معصوم لوگوں کو تشدد پر اکسا کر معاشرے میں بگاڑ پیدا کررہے ہیں اگر ایسا نہ کیا گیا تو بنا ثبوت و شواہد کی الزام تراشی سے کسی کا گھر نہیں بچے گا اور اس کا ذمہ دار ہمارا پورا معاشرہ ہوگا ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).