فحاشی کی مخالفت کیسے کی جائے؟


گزشتہ ہفتے برادرم یاسر پیرزادہ نے ’شک کی بنیاد پر مجرم ‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا۔ اس کالم میں یاسر پیرزادہ نے میکارتھی ازم کا ذکر بھی کیا۔ معاملہ یہ تھا کہ دوسری عالمی جنگ میں اٹلی کا فسطائی مسولینی، جرمنی کا نازی ہٹلر اور جاپان کا جنگجو ٹوجو شکست کھا گئے تھے۔ دوسری طرف ایک نو آبادیاتی طاقت کے طور پر برطانیہ کا دم خم ختم ہو گیا تھا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ دوسری عالمی جنگ جیتنے میں روس کا کردار زیادہ تھا یا امریکا کا۔ 1941ء میں جرمنی کی فوجیں روسی سرزمین کو روندتی ہوئیں ماسکو کی طرف بڑھ رہی تھیں تو امریکا جنگ کا حصہ نہیں تھا۔ منٹگمری نے العالمین میں رومیل کو شکست دی تو امریکی فوجی افریقہ میں موجود نہیں تھے۔ تاہم جنگ کے دوران برطانیہ کی معاشی رسد امریکا کی مرہون منت تھی اور روسی افواج کے لیے امریکی ٹیکنالوجی کی مدد ناگزیر تھی۔ جنگ کے بعد وجود میں آنے والی دنیا میں روس اور امریکا کو قیادت کا دعویٰ تھا۔ اشتراکی دنیا اور سرمایہ دار بلاک کا تضاد جنگ کے دوران نظر انداز کیا گیا، لیکن ختم نہیں ہوا تھا۔ یہی تضاد سرد جنگ کی صورت میں نمودار ہوا۔ عالمی بالادستی کی کشمکش بلند اخلاقی اصولوں سے آگے نہیں بڑھائی جاتی۔ ایک طرف میکارتھی ازم کا غلغلہ تھا تو دوسری طرف برلن اور ہنگری کے مناظر تھے۔ روس میں عقوبت خانے بدستور آباد تھے ۔ میکارتھی ازم سستی قوم پرستی کی آڑ میں حقیقی سوالات کو دبانے کی ایک کوشش تھا۔ اپنے ملک کے سیاسی حالات، معاشرتی حقائق اور علمی مفروضات پر سوال اٹھانا بدیہی طور پر فتنہ انگیزی نظر آتا ہے۔ حقیقی علم دوستی، حب الوطنی اور انسان دوستی کے بیچ مگر سوال کی کوکھ میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔ یہ معاملہ صرف تاریخ کے بارے میں موقف، فلسفیانہ رائے اور سیاسی رجحانات سے تعلق نہیں رکھتا۔ اختلاف رائے کے لیے رواداری انسانی تہذیب کا بنیادی مقدمہ ہے۔

اصطلاحات کے من مانے معانی بیان کرنے میں ہم بادشاہ لوگ ہیں ۔ سیکولرازم کے خالص سیاسی سوال کو الحاد کے مذہبی زاویوں سے جا جوڑتے ہیں۔ قوم کا مفہوم ہم نے ایسا سمجھا ہے کہ کہیں یوسف زئی کو قوم قرار دیتے ہیں اور کہیں انتالیس ممالک کے ممکنہ فوجی اتحاد کو قوم کی قبا پہنا دیتے ہیں۔ آمریتوں کا چلن ہماری تاریخ کا طویل باب رہا ہے۔ آمریت کی اندھیری گلی میں سایوں سے دست بدست لڑائی لڑتے ہوئے ہم حکومت اور ریاست کا فرق بھولتے رہے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہوتا۔ آمریت ریاست کو حکومت کے تابع کرنے کا نام ہے۔ ایک صاحب دانش نے اگلے روز فیصلہ دیا کہ پاکستان میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی کیونکہ ہم خاندانی اجارہ داریوں کو سیاسی جماعتیں سمجھتے ہیں۔ صاحب علم نے یہ وضاحت البتہ نہیں کی کہ اگر جمہوریہ میں شہریوں کی حاکمیت اعلیٰ سے انکار کیا جائے اور پارلیمان کے حق قانون سازی پر ان دیکھی بندشیں عائد کی جائیں تو حقیقی سیاسی جماعتیں کیسے قائم ہو سکتی ہیں۔ قوم،جمہوریت اور حاکمیت ہی کی طرح فحاشی کی اصطلاح بھی ہمارے ہاں متنازع ہے۔ عریانی کو ہم فحاشی سمجھتے ہیں۔ عریانی تو محض ڈھانپنے اور ڈھانپ سکنے کا واقعاتی بیان ہے۔ لباس خریدنے کی مالی سکت سے محروم انسان پر عریانی کی تہمت لگائی جائے گی یا فحاشی کی۔ نومولود بچے کی لباس سے بے نیازی کو فحاشی سے کیا تعلق؟ کیا زیر علاج مریض کے اعضا دکھائی دینا فحاشی کہلائے گا۔ آرٹ کے اساتذہ نے بتایا تھا کہ کم عمر بچے گرمی کے موسم میں گاﺅں کی نہر میں نہاتے ہیں تو انہیں فحش نہیں سمجھا جاتا۔ تھانیدار کے حکم پر لباس سے محروم کیا جانا بدترین فحاشی ہے۔ یہ فحاشی لباس سے محرومی کا نتیجہ نہیں بلکہ لباس کے حق انتخاب سے جبراً محروم کئے جانے سے پیدا ہوتی ہے۔ احترام انسانیت سے محروم کئے جانے پر فحاشی پیدا ہوتی ہے۔ ہمارے کچھ اصحاب پیمرا اور حکومت سے مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ فحاشی کو ختم کیا جائے۔ یہ احباب نہایت نیک نیت ہیں۔ معاشرے میں فحاشی کو بہرصورت ختم کرنا چاہیے۔ نامناسب نہ ہو گا کہ اس نیک بحث میں شامل ہو کر درویش فحاشی کی کچھ ایسی صورتیں بیان کرے جو ہمارے معاشرے میں عام ہیں اور فحاشی کی ان صورتوں کو ختم کئے بغیر ایک پاکیزہ معاشرہ تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔

بندوق کے بل پر حکومت قائم کرنا اور شہریوں کو تشدد کا خوف دلا کر انہیں اپنے حق حکمرانی سے محروم کرنا انسانی معاشرے میں ناقابل قبول فحاشی ہے۔ اس فحاشی کے نتیجے میں بہت سے افراد اپنے ضمیر کی شفافیت سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ کبھی انہیں نیب کی فائلیں دکھا کر آمریت کی اطاعت پر مجبور کیا جاتا ہے تو کبھی منصب کا لالچ دے کر ضمیر کی آواز سے محروم کیا جاتا ہے۔ جو لوگ آمریت کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں انہیں عقوبت خانوں میں قید کر دیا جاتا ہے۔ آمریت معاشرے میں فحاشی کو فروغ دیتی ہے۔ کچھ لوگ آمریت سے ڈر کر فحاشی کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور کچھ لوگ آمریت کے خلاف مزاحمت کر کے فحاشی کا نشانہ بنتے ہیں ۔ آمریت قوم پر اجتماعی فحاشی مسلط کرنے کا نام ہے۔ آمریت کی موجودگی میں قوم کا ہر فرد شرمندہ ہوتا ہے اور اس بے بسی سے اجتماعی فحاشی جنم لیتی ہے۔ مہذب قومیں آمریت کی فحاشی کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔

کچھ معاشروں میں شہریوں کو حقیقی سوالات اٹھانے اور اپنے علم کے مطابق موقف اختیار کرنے کی بجائے کچھ خاص سانچوں اور رویوں کی اطاعت کا درس دیا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال گلیلیو ہے۔ گلیلیو اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ کلیسا کے پاس گلیلیوکے مو ¿قف کو جھٹلانے کے لیے دلیل نہیں تھی البتہ کلیسائی احتساب کی عدالت موجود تھی۔ دلیل کی بجائے تقدیس اور مکالمے کی بجائے مشتعل ہجوم کو بروئے کار لایا جائے تو معاشرے میں فحاشی پیدا ہوتی ہے۔ گلیلیو کو اپنے جائز علمی مو ¿قف سے روکنا فحاشی تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو پر غیر منصفانہ عدالتی فیصلہ مسلط کرنا قانونی فحاشی تھی۔ منصور حلاج اور قرة العین طاہرہ جیسے لوگ فحاشی کے حقیقی مخالف ہوتے ہیں۔ سوال اٹھانے والوں اور نیا راستہ نکالنے والوں پر عتاب کی تلوار کڑکانے والے فحاشی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

مہذب انسانی معاشرہ ہر انسان کو اپنے عقائد اختیار کرنے اور ان کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی عطا کرتا ہے۔ اس آزادی کو اپنی پارسائی کے اظہار اور دوسروں پر فیصلہ آرائی کی اقلیم میں لے جانا اس خوبصورت آزادی کو فحاشی میں تبدیل کرتا ہے۔ اپنے ضمیر کے مطابق عبادت کرنا ایک خوبصورت فعل ہے۔ اپنی عبادت کی بنیاد پر معاشرے میں مراعات یافتہ حیثیت کا مطالبہ کرنا اور دوسروں کے عقائد پر حکم لگاناعقیدے کی آزادی کا ناجائز استعمال ہے۔ انسانی آزادی کو ٹکڑوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔ ہم اپنے عقیدے کا کماحقہ احترام اسی صورت میں کر سکتے ہیں جب ہم دوسروں کے لیے عقیدے کی آزادی کا احترام کرنے پر تیار ہوں۔ جسمانی طور پر کمزورافراد، مالی طور پر کم استطاعت رکھنے والے، اقلیتی گروہ سے تعلق رکھنے والوں اور سماجی اثرورسوخ سے محروم افراد کا استحصال کرنا بدترین فحاشی ہے۔ اپنے منصب سے ناجائز فائدہ اٹھانا فحاشی ہے۔ کسی اکثریتی گروہ سے تعلق کو منفعت کا ذریعہ بنانا فحاشی ہے۔ دوسروں کے دکھ درد سے لاتعلق ہونا فحاشی ہے۔ قانون شکنی کرنا فحاشی ہے۔ جنگ فحاشی ہے۔ معاشرے کی خوبصورتی میں اضافہ کیے بغیر، علم کو آگے بڑھائے بغیر اور انصاف کے لیے جدوجہد کیے بغیر زندگی گزارنا فحاشی ہے۔ ہمیں فحاشی کی بھرپور مخالفت کرنی چاہیے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم فحاشی کے مفہوم کو پوری طرح سمجھیں۔ فنون عالیہ سے تعلق فحاشی کے بارے میں حساسیت پیدا کرتا ہے۔ ہر اچھا شاعر، افسانہ نگار، موسیقار اور مصور معاشرے میں فحاشی کے خلاف جدوجہد کرتا ہے۔فسطائیت، آمریت، استحصال، امتیاز اور ناانصافی جیسی فحاشی کے خلاف مزاحمت کے لیے فنون عالیہ سے تعلق پیدا کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).