تمہیں تو اپنے بچوں کو پڑھانا ہے


مشعال خان کیس کے مرکزی ملزم وجاہت اور زخمی طالب علم عبداللہ کے بیانات کے بعد اس سانحے کی ذمہ داری پروفیسرز سمیت یونیورسٹی انتظامیہ پر عائد ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اس دل شکن واقعے کے بعد جہاں ان گنت سوالات اٹھے وہیں استادِ محترم ڈاکٹر ساجد علی سمیت بعض اور نبض شناسوں نے ماضی کے اساتذہ کے واقعات پیش کر کے یہ سوال بھی اٹھایا کہ جب یہ ظلم ہو رہا تھا تب اس یونیورسٹی کے اساتذہ کیا کر رہے تھے؟ آج جب یہ بیانات سامنے آ چکے ہیں تو اس سوال کا کسی حد تک جواب مل چکا ہے۔ وہ اساتذہ کانفرنس ہال میں چند اور بچوں کو طلب کر کے وہ سب پڑھا رہے تھے جو کوئی دشمن کے بچوں کو بھی نہ پڑھائے۔ یہ جواب کئی اور تلخ سوالات اٹھا گیا ہے جن کا سامنا ہم سے آج نہیں تو کل پھر کسی مشعال کے خون کے ذریعے ہو گا۔ ہمارے یہاں ترقی کا جو تصور موجود ہے وہ قدرے یک جہت نوعیت کا ہے جس میں روایت پر تنقید کا باب شاید کسی قدر توانا سہی مگر جدت پر تندرست تنقید کا صحیح طرح آغاز بھی نہیں ملتا۔ چنانچہ دینی مدارس کے بارے میں ہمارے یہاں جو تنقید دستیاب ہے اس کا عشر عشیر بھی کالجوں اور یونیورسٹی کے کردار کے بارے میں موجود نہیں۔ اس کوتاہی کے نقصانات ملاحظہ کرنے کے لیے کسی دوربین کی ضرورت نہیں بلکہ کسی بھی قریبی یونیورسٹی کا دورہ کافی رہے گا۔

پاکستان میں اس حوالے سے صورت حال مزید بھیانک ہے جہاں پرائیویٹ یونیورسٹیاں نہایت مہنگی فیسوں پر کسی حد تک جامع اور معقول انداز میں تعلیم دی رہی ہیں۔ یہاں زیادہ تر ہنگامے نہیں ہوتے اور سیاسی و لسانی رنجشوں کی آنچ بھی دھیمی ہوتی ہے۔ دوسری طرف سرکاری جامعات ہیں جہاں فیس تو نسبتاً کم ہے لیکن صورتحال کسی قدر وہی ہے جو کسی پرائیویٹ ہسپتال کی بجائے سرکاری ہسپتال میں نظر آتی ہے۔ سرکاری اداروں کے انحطاط میں ایک عجیب طرح کی یکسانی کا پایا جانا بجائے خود انحطاط کی بدترین شکل ہے۔ یہ گویا ایک غیرعلانیہ حقیقت ہے کہ جو دھوکے سے بچنا چاہتا ہے وہ پیسے بھرے اور بہتر خدمات حاصل کرے خوامخواہ ریاست کو غیر ضروری تکلیف نہ دی جائے۔ ان سرکاری یونیورسٹیوں میں جہاں مڈل اور لوئر مڈل کلاس اپنے بچے بھیجتی ہے۔ واضح رہے کہ شعبہ جات اور خدمات کے جدید احوال میں انہی طبقات کو جدید تعلیم اور نوکریوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اور یہی طبقہ سیاسی و مذہبی تحریکوں میں بھی تیزی سے شامل ہوتا جا رہا ہے۔ ان یونیورسٹیوں کے ہاسٹلز میں بھی کثیر طلبا رہائش اختیار کرتے ہیں اور ان ہی یونیورسٹیوں میں طلبا میں گروہی تعصبات نیز سیاسی و لسانی رنجشوں کا شدید اظہار بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ مدارس میں جانے والے زیادہ تر طلبا کا تعلق بھی زیریں طبقے سمیت اسی لوئر مڈل کلاس سے ہی ہوتا ہے تاہم مدارس میں اس سطح کے گروہی تعصبات کا اظہار دیکھنے میں نہیں آتا جیسا یونیورسٹیوں میں ملتا ہے۔

نوم چومسکی کا خیال ہے کہ سوشل سائنسر کی تعلیم میں حقائق کا درست شعور دینے سے یہ امکان پیدا ہوجاتا ہے کہ طلبا ان تلخ سماجی حقائق کو تبدیل کرنے کی تحریک پائیں جب کہ سائنس کی تعلیم میں درست شعور جدت اور ٹیکنالوجی میں وسعت و ایجاد کا باعث بنتا ہے۔ چونکہ ٹیکنالوجی کی براہ راست ضرورت ہے پس سائنسی تعلیم قدرے تسلی بخش جبکہ سماجی علوم کی تعلیم کا بیڑہ غرق نظر آتا ہے۔

نیز ان شعبہ جات میں کثیر تعداد میں طالب علم آتے ہیں اور اکثر اوقات طلبا کی سیاسی و گروہی قیادت بھی انہی شعبہ جات سے سامنے آتی ہے تو یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ دیکھا جائے کہ آخر ہماری یونیورسٹیز کے سماجی علوم اور آرٹس کے شعبہ جات میں تعلیم کا معیار کیا ہے اور طلبا کس ماحول میں زندگی گزارتے ہیں ؟ پروفیسرز حضرات کلاسز میں کیا کیا فرماتے ہیں اور طلبا کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت کیا کیا رخ اختیار کر سکتی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری یونیورسٹیز کے ان شعبہ جات میں ایسا ماحول پایا جاتا ہے جہاں محض مذہبی و گروہی رنجشیں اور طاقت کی زبان ہی زندہ رہ سکے؟ سرکاری جامعات کے ان شعبہ جات میں کون کون سے کورسز پڑھائے جا رہے ہیں اورکس قسم کی کتب مہیا کی جاتی ہیں؟ ان کورسز کی منظوری اور ترتیب کا نظام کس قدر معقول اور اس حوالے سے بدلتے تقاضوں کے ساتھ اساتذہ کے علم اور تعلیم کی مہارت کی جانچ کے طریقے کیا ہیں؟ اساتذہ کی تربیت اور بھرتی کے مراحل اور معیار کیا کیا ہیں؟ درس نظامی کا نصاب ہر چند فرسودہ سہی تاہم یونیورسٹی پروفیسر اپنے مضمون میں تازہ انکشافات کے کس حد تک باعلم ہیں اور ان کی سی- وی پر درج شدہ مقالہ جات میں سے کتنے مقالے بین الاقوامی معیار اور نام کے جرائد میں شائع ہوتے ہیں؟

منبر پر ملا کے خطبے کی حدود پر شور بجا لیکن کلاس روم میں اساتذہ کیا کیا فرماتے ہیں اور اس دوران ان پر کن حدود کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ سوال کب کیا جائے گا ؟

ایک اور الجھن یہ ہے کہ ملا کا مسلک تو واضح ہے بلکہ وہ اپنے مسلک کے سوا کسی منبر کا مالک نہیں بن سکتا لیکن پروفیسر حضرات کے گروہی و علمی مسالک کیا ہیں اور کیا کمرہ جماعت میں وہ اپنے مسلک کی ترویج کا فرض بھی انجام دیتے ہیں؟ اساتذہ عمل تعلیم کی اخلاقیات کا کس قدر شعور رکھتے ہیں اور ان کے نزدیک ان کے پیشے کا تصور کیا ہے؟ کیا ہمارے یونیورسٹی کے پروفیسر حضرات بھی کیا پیر و مرشد ہیں جو سوال کو قبیح جانتے ہیں یا وہ دلیل کو علم کی سیڑھی جانتے ہیں اور خود کو اس سیڑھی کے وہ بازو جن سے درجہ بدرجہ طلبا افق علم پر قدم دھرتے جائیں ؟ کیا اساتذہ علم و اخلاق کی کسی مخصوص تعبیر کو تعلیم کی آڑ میں تبلیغ کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں ؟

جدید جامعات کا نظام شعبہ جات کی کمرشل تقسیم کار اور خدمات کے لیے باعلم اور مستعد کارکن پیدا کرنے کے وجود میں لایا گیا ہے۔ ان جامعات میں ‘ انسان سازی’ کا رجحان کیا ہے اور ان جامعات کے طلبا کی ذہن سازی عموماً کن خطوط پر کی جاتی ہے؟ کیا اس ذہن سازی کا عملی نتیجہ ملک اور قوم کے عمومی سیاسی و وجودی زوال کی صورت میں دکھائی دے رہا ہے ؟

ان سمیت اور درجنوں ایسے سوالات ہیں جن کے جواب سے پہلے یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ ہماری جامعات معاشرے کی ترقی کے لیے مفید اور باعلم کارکن پیدا کر رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).