ریفرنڈم نے ترک عوام کو تقسیم کر دیا


 ترکی کے ریفرنڈم میں عوام کی اکثریت نے آئینی ترامیم کو منظور کر لیا ہے۔ اس طرح ملک میں پارلیمانی نظام اور بااختیار وزیراعظم کی جگہ صدر کو تمام انتظامی اختیارات تفویض ہو جائیں گے جو نائب صدور اور وزرا کے ذریعے امور مملکت چلانے میں خود مختار ہوں گے۔ اس صدارتی نظام کی سب سے انوکھی بات یہ ہے کہ صدر پارلیمنٹ کو جوابدہ نہیں ہوگا کیونکہ وہ براہ راست عوام کے ووٹ سے منتخب ہوا کرے گا۔ ملک میں وزیراعظم کا عہدہ ختم کر دیا جائے گا اور صدر کو سپریم کورٹ کے ایک تہائی جج خود نامزد کرنے کا اختیار بھی ہوگا۔ اس کے علاوہ ضرورت پڑنے پر صدر ایمرجنسی بھی نافذ کر سکے گا جس کے تحت بنیادی حقوق معطل ہو سکیں گے۔ ان ترامیم کے تحت ملک میں صدر اور پارلیمنٹ کا آئندہ انتخاب 3 نومبر 2019 کو منعقد ہو گا۔ موجودہ صدر طیب اردوان 2019 اور 2024 کا انتخاب جیت کر 2029 تک صدارت کے عہدے پر فائز رہ سکیں گے۔ صدر طیب اردوان اور وزیراعظم بن علی یلدرم نے کل رات ریفرنڈم میں کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب ملک ترقی کا سفر جاری رکھ سکے گا اور ملک کی بہتری کےلئے فیصلے کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوگا۔ تاہم اپوزیشن نے ریفرنڈم کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے انہیں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ آئینی ترامیم کے خلاف مہم چلانے والی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ری پبلکن پارٹی CHD نے 60 فیصد ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا ہے اور الیکشن کمیشن کی طرف سے پولنگ کے دوران سرکاری مہر کے بغیر ووٹ قبول کرنے کے فیصلہ کو انتخاب میں دھاندلی سے تعبیر کیا ہے۔

ملک کے الیکشن کمیشن کے سربراہ سعدی گودن نے اپوزیشن کے مطالبہ کو مسترد کرتے ہوئے بے قاعدگیوں کے الزامات کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ کمیشن نے سب فیصلے قانون کے مطابق کئے ہیں۔ انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ووٹنگ کے دوران کمیشن نے سرکاری مہر کے بغیر ووٹوں کو گنتی میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن ان کے مطابق یہ فیصلہ قانون و آئین کے عین مطابق تھا۔ اس دوران ترکی میں سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز اور تصویریں شیئر کی جا رہی ہیں جن میں لوگوں کو ہاں پر مہر لگاتے اور زبردستی انہیں بیلٹ باکس میں ڈالتے دیکھا جا سکتا ہے۔ عالمی و یورپی مبصرین نے متفقہ طور پر ترکی میں ہونے والے ریفرنڈم کو جمہوری اصولوں اور طریقہ کار کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ مبصرین کی سربراہ سیفراز فلوربن پریڈا نے کل رات انقرہ میں پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ یہ ریفرنڈم غیر جانبدارانہ ماحول میں منعقد نہیں ہوا۔ ایک طرف حکومت اور حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی AKP کو کھل کر اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کی آزادی تھی لیکن دوسری طرف سینکڑوں اپوزیشن لیڈروں کو گرفتار کرکے انہیں اپنا موقف عوام تک پہنچانے سے روکا گیا تھا۔ متفقہ اور اعلان شدہ طریقہ کار کے مطابق تمام اپوزیشن پارٹیوں کو ووٹنگ کی نگرانی کے لئے تمام پولنگ اسٹیشنوں پر نمائندے مقرر کرنے کی اجازت اور حق حاصل تھا لیکن عملی طور پر دیکھنے میں آیا کہ بیشتر پولنگ اسٹیشنوں پر اپوزیشن کے نمائندوں کو نگرانی کرنے سے روکا گیا۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ پولیس پولنگ اسٹیشنوں کے اندر موجود تھی اور ترامیم کی حمایت میں ووٹ دینے کےلئے راہ ہموار کر رہی تھیں۔ عالمی مبصرین کی طرف سے ووٹنگ کے دوران سرکاری مہر کے بغیر اور کھلے ہوئے لفافے میں ڈالے گئے بیلٹ پیپرز کو گنتی میں شامل کرنے کو اہم ترین بے قاعدگی قرار دیا گیا ہے۔ دھاندلی اور زور زبردستی کے ان الزامات کے باوجود اب یہ بات واضح ہے کہ صدر طیب اردوان اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور آئینی ترمیم کے ذریعے وہ ملک کے مطلق العنان رہنما بن جائیں گے۔

ریفرنڈم میں آئینی ترامیم کی حمایت میں 51 اعشاریہ چار فیصد جبکہ ان کی مخالفت میں 48 اعشاریہ 6 فیصد لوگوں نے ووٹ ڈالا۔ رائے دینے والوں کی تعدا 85 فیصد رہی۔ مجموعی طور پر 47 ملین سے زائد ووٹروں نے ریفرنڈم میں حصہ لیا۔ صدر اردوان کا دعویٰ ہے کہ ترمیم کے حق میں 25 ملین لوگوں نے ووٹ دیا ہے۔ یورپ میں مقیم ترک باشندوں نے بھی اس ریفرنڈم میں حصہ لیا۔ جرمنی میں ترک نژاد تارکین وطن 3 ملین کے قریب آباد ہیں۔ اکثر یورپی ملکوں میں بھی ترک باشندوں کی اکثریت نے آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دیا ہے لیکن ان ملکوں میں ووٹ ڈالنے والوں کی شرح 50 فیصد سے کم رہی ہے۔ یورپ میں اگرچہ ترکی میں آئینی ترامیم اور صدر اردوان کو تمام اختیارات دینے کے حوالے سے شدید تحفظات پائے جاتے ہیں لیکن یورپی ملکوں نے ریفرنڈم کے نتیجہ کو قبول کیا ہے جبکہ متعدد ملکوں نے جن میں آذربائیجان ، قطر ، پاکستان ، ہنگری ، مقدونیہ، سعودی عرب ، سوڈان اور کینیا شامل ہیں، صدر طیب اردوان کو ریفرنڈم میں کامیابی پر مبارکباد کے پیغامات بھیجے ہیں۔ صدر اردوان نے کل رات کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس ریفرنڈم کے ذریعے ترک عوام نے اپنے ملک کےلئے ایک نئے عہد کا آغاز کیا ہے۔ اب ملک صرف ترقی کی طرف گامزن رہے گا۔ طیب اردوان 2014 میں ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ اس سے پہلے وہ دس برس تک وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے تھے۔ موجودہ صورت میں صدر کا عہدہ رسمی ہے اور صدر کسی سیاسی وابستگی کا اظہار بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن ترامیم کے بعد سارے اختیارات صدر کو حاصل ہو جائیں گے۔ اور پارلیمنٹ ایک غیر موثر ادارہ بن کر رہ جائے گی۔ اس کے علاوہ صدر کو اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی تقرری اور عدالتی کارروائی میں مداخلت کا اختیار بھی حاصل ہوگا۔ ترامیم میں خاص طور سے صدر کو یہ حق بھی دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی پارٹی کا رکن یا عہدہ دار بھی ہو سکتا ہے۔ اس طرح آئینی ترامیم ترکی میں نظام حکومت کو مکمل طور سے تبدیل کر دیں گی۔

صدر طیب اردوان نے 2014 میں صدارت سنبھالنے کے بعد سے حکومتی اختیارات پر تسلط برقرار رکھا تھا۔ گو کہ ملک میں پارلیمانی نظام تھا اور وزیراعظم حکومت کا سربراہ تھا لیکن سارے فیصلے صدر اردوان کی مرضی اور نگرانی میں ہوتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ مسلسل آئینی ترامیم کےلئے کوشاں رہے ہیں تاکہ سارے اختیارات آئینی لحاظ سے ان کے ہاتھ میں آ جائیں۔ کل منعقد ہونے والے ریفرنڈم میں کامیابی کے ذریعے انہوں نے یہ مقصد بھی حاصل کر لیا ہے۔ صدر طیب اردوان کی اس کامیابی میں گزشتہ برس فوجی بغاوت کی ناکام کوشش نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس بغاوت کو عذر بنا کر ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی اور آزادی اظہار کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا۔ ملک کے متعدد اخبارات کو بند کر دیا گیا اور اپوزیشن پر شدید قدغن عائد تھی۔ ملک کے مذہبی رہنما فتح اللہ گولن سے وابستگی رکھنے والوں کو دہشت گرد اور ملک کا غدار قرار دیا گیا۔ اس تحریک کے زیر انتظام چلنے والے اسکولوں، اسپتالوں اور فلاحی اداروں کو بند کر دیا گیا اور ملک میں ایک لاکھ 40 ہزار افراد بغاوت میں براہ راست یا بالواسطہ ملوث ہونے کے الزام میں قید کئے جا چکے ہیں۔ صدر اردوان کا کہنا تھا کہ ملک کی سلامتی اور سکیورٹی کےلئے صدر کا بااختیار ہونا بے حد ضرروری ہے۔ اس سے اعتماد میں اضافہ ہوگا اور استحکام بڑھے گا۔ ریفرنڈم جیتنے کےلئے ایک طرف یورپ کے خلاف پرجوش تقرریں کی گئیں تو دوسری طرف ترکی کو اسلامی جمہوریہ بنانے کے وعدے کئے گئے۔ اسی لئے ترامیم کے حق میں ووٹ دینے والے اکثر نوجوانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اب ملکی معاملات میں بیرونی مداخلت بند ہو جائے گی۔ اب یورپ اور امریکہ کو پتہ چل جائے گا کہ ترکی ایک طاقتور ملک ہے جو مشرق وسطیٰ کے معاملات میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ بعض حامی تو اسے خلافت عثمانیہ کا احیا بھی کہتے ہیں۔

آئینی ترامیم کے مخالفین اسی خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کے ذریعے صدر اردوان آمر کی حیثیت اختیار کر لیں گے اور ان پر کسی قسم کی قدغن عائد نہیں ہوگی۔ ملک میں انسانی حقوق کمزور ہو جائیں گے۔ انتخابی مہم کے دوران صدر اور اے کے پی پارٹی کے لیڈر موت کی سزا بحال کرنے کا اعلان بھی کرتے رہے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنے کی صورت میں ترکی اور یورپ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ اور ترکی کی یورپی یونین کا رکن بننے کی خواہش پوری نہیں ہو سکے گی۔ تاہم طیب اردوان اکثر یورپ کو لتاڑتے ہوئے ترکی کی خودمختاری کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ یورپ کے اکثر ملکوں میں بھی ادوان کے طرز سیاست کے بارے میں اچھی رائے موجود نہیں ہے۔ اگر ریفرنڈم میں کامیابی اور کلی اختیارات حاصل کرنے کا مقصد پورا ہونے کے بعد بھی صدر اردوان نے اپنا لب و لہجہ اور سیاسی طرز عمل تبدیل نہ کیا تو ترکی کی سیاسی اور اقتصادی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

صدر طیب اردوان ریفرنڈم میں برتری کو اپنی کامیابی ضرور قرار دے سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ قوم کو دو حصوں میں تقسیم کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کے طرز حکمرانی سے اس بات کا امکان نہیں کہ وہ اختلافات کی اس خلیج کو پاٹنے میں کردار ادا کر سکیں گے۔ اس طرح مقاصد اور اہداف کےلئے متحد ترک قوم اب منتشر اور تقسیم ہو چکی ہے۔ ملک کی نصف آبادی صدر اردوان کے اقدامات اور اعلانات کو شدید شبہ کی نظر سے دیکھتی ہے۔ ترقی کی طرف گامزن ایک مضبوط ملک کےلئے یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2764 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali