مشال خان کے نام تاخیر سے پوسٹ کیا گیا محبت نامہ


یہ تحریر اعتراف ہے یا شاید خودکلامی ہے یا جانے کیا ہے۔ میں کہنا یہ چاہتی ہوں مشال کہ تمہارے ساتھ جو ہوا اُسے غلط کہنے کی خاطر مجھے کسی اگر مگر لیکن کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے ان ابتدائی شواہد سے فرق نہیں پڑتا کہ توہین کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ میں یہ کہنا چاہتی ہوں مشال کہ ایسا کوئی ثبوت مل جاتا تب بھی جو ہوا وہ غلط ہی رہتا اُس کی کوئی عذر خواہی ممکن ہی نہیں۔ میں نے تم سے کچھ پوچھنا بھی ہے، تم باہر چلے گئے تھے تو واپس کیوں آ گئے؟ یہ سوال تو میں جنید سے بھی پوچھنا چاہتی ہوں جو برسوں سے زنداں میں پڑا ہے۔ میں نے تمہاری باتیں سنی ہیں، تمہیں یونیورسٹی کی فیس سے لے کر بدانتظامی تک بہت سی شکایات تھیں۔ اب ان معاملات پہ بولنے کی کیا ضرورت ہے؟ شاید کتاب دوستی اور تمہارے شعور نے ناانصافی کے خلاف بولنے پر مجبور کر دیا ہو گا ورنہ کتنے ہی لوگ ہیں جو ان جامعات سے چپ چاپ نکل جاتے ہیں۔ یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ کاش مشال تم چپ رہتے یا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر مشال چپ رہتا تو ایسا نہ ہوتا میں تو خود چپ نہیں رہتی میں تمہارے لیے ایسی بات کیسے بول سکتی ہوں۔

مشال ایک تمہارا دوست جس نے تمہارا جنازہ پڑھانے سے انکار سننے کے باوجود تمہارے مرنے کے بعد تمہارا ساتھ دیا اور دوسرا تمہارا دوست عبداللہ جس نے آج بیان دیا کہ انتظامیہ نے اس پر دباؤ ڈالا تھا، اگر یہ دونوں بھی ایسا نہ کرتے تو ہمیں شاید ساتھ بیٹھے ہر انسان سے خوف آتا کہ جن کے ساتھ روز اٹھنا بیٹھنا ہو اُن میں سے کچھ لوگ ایک روز یہ سب کر سکتے ہیں جو تمہارے ساتھ ہوا۔ کیا تم جانتے ہو مشال تم نے عبدالحمید عدم کا ایک شعر اپنی دیوار پر سجایا تھا اور اس کے اسکرین شاٹ کو ثبوت کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ مجھے غالب کا شعر یاد آ گیا

بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں، کہ ہم

الٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا

کیا عدم اور غالب آج بھی یہ سب لکھ کر بچ جاتے ؟ کیا کوئی کہہ دے کہ جنت کی حقیقت معلوم ہے مگر دل کے خوش رکھنے کو خیال اچھا ہے تو اُس پر بھی کسی پروفیسر کی طرح کا مقدمہ چلایا جائے گا؟

عمر ساری تو کٹی عشقِ بُتاں میں مومن

آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے

تو کیا اب مومن سے پوچھا جائے گا کہ بھئی توبہ کا دروازہ تو ہمیشہ کھلا رہتا ہے یہ واہی تباہی بکنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا یہ سب جو مر گئے ان کی قبروں کا ٹرائل کیا جائے گا؟ میں یہ سوال کیوں پوچھ رہی ہوں اور کس سے پوچھ رہی ہوں میں خود بھی نہیں جانتی۔

میں انتظار کرتی رہی مشال، کوئی تو کہے کہ اِس الزام کی آڑ میں ذاتی رنجشوں کا بدلہ لیا جاتا ہے، کوئی تو کہے کہ توہین کے الزامات کے پیچھے اکثر کوئی سچائی چھپی ہو تو وہ دنیاوی معاملات ہوتے ہیں جن کو چھپانے کے لیے یہ الزام لگایا جاتا ہے۔ وہ جو خود کو رہنما کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں انہوں نے خاموشی سے بیٹھ کر دیکھا کہ ہوا کا رخ کیا ہے اور پھر مدھم لہجوں میں بات کرنا شروع کی۔ سوشل میڈیا پہ اتنا شور تھا مگر وہ جو آزاد میڈیا ہے سوائے دو چار لوگوں کے اُسے بھی آگے بڑھ کر بولنے میں اتنا ہی وقت لگا جتنا رہنماؤں کو لگا ۔ کیا ایسے ہوتے ہیں رہنما؟ وہ وقت جب انہیں مشال کے گھر ہونا چاہیئے تھا، جنازے کی پہلی صف میں ہونا چاہیئے تھا تب وہ بیٹھے دیکھ رہے تھے کہ ابتدائی شواہد کیا کہتے ہیں۔ ایک قتل کی مذمت کی خاطر ایسے لوگوں کو ثبوت درکار تھا جن کا کام مذمت سے زیادہ قاتلوں کو سزا دینے کا عزم کرنا اور اِس مشکل گھڑی میں مشال کے گھر کے سامنے ہونا چاہیئے تھا۔ کوئی پہلے بولا، کوئی بعد میں بولا، کسی نے رسمی جملے ادا کیے اور کسی نے محتاط لہجہ اپنایا۔ جو لوگ نظریاتی طور پر باقی سب سے مختلف ہونے کے دعوے کریں اور اپنے نظریے کو سب سے بہتر قرار دیں کسی مشکل وقت میں جب وہ سامنے آ کر واضح طور پر کسی اگر مگر لیکن چونکہ چنانچہ بےشک کے بغیر مشال کے ساتھ جو ہوا اسے غلط نہ کہہ سکیں تو کیا انہیں محض گفتار کے غازی کہنا غلط ہو گا؟

مشال تم جانتے ہو ایک جگہ وزیراعظم سے منسوب بیان چھپا کہ موب جسٹس (Mob Justice) غلط ہے، میں انہیں بتانا چاہتی ہوں کہ یہ موب وائیلنس یا موب لِنچنگ تو ہے مگر اسے کسی طور بھی جسٹس کہنا یا اِس لفظ کا استعمال درست نہیں۔ ہولی کے موقع پر ہندو برادری کے لیے خیر سگالی کے جذبات و کلمات کی ادائیگی کے بعد اُن پر بھی ایسا الزام لگایا گیا، عمران خان ایسے ہی ایک معاملے کو بھگت چکے ہیں۔ تمہاری یونیورسٹی عوامی نیشنل پارٹی کا گڑھ ہے جس نے بہرحال نظریاتی طور پر سب سے مختلف ہونے کے دعوے کیے اور دہشتگردی کو بھگتا ہے ، پیپلز پارٹی اپنے لوگ کھو چکی ہے اسی لغو الزام کی وجہ سے۔ مجھے انتظار ہے مشال، کون اس بات کی نشاندہی کرے گا کہ اِس الزام کی حقیقت ذاتی رنجشوں اور ہتھکنڈوں کے سوا کچھ نہیں ہے، اِسے لوگ اور اداروں کی جانب سے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور اس کا سب سے اہم مقصد زباں بندی ہے ، ہر مخالف آواز کو چپ کرانے کا ہتھکنڈا ہے۔ کیا رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والا کوئی بڑا نام واضح الفاظ میں اسے غلط کہتا ہے؟ کوئی جماعت تمہارے ساتھ کھڑے ہونے کا حوصلہ رکھتی ہے ؟ یا سب تمہارے قتل کو محض سیاست کی خاطر استعمال کریں گے؟ کیا تم اِس راہ کے آخری مسافر ہو مشال یا ابھی اور بہت سے لوگ جان سے جائیں گے پھر بات بنے گی؟کیا تمہاری ماں کے سوا کسی کو تمہاری ٹوٹی انگلیاں یاد رہیں گی؟ کیا تمہارے باپ جیسا فہم ہماری قیادت کو کبھی نصیب ہو پائے گا؟ تمہارے والد کا کہنا ہے کہ سول سوسائٹی شاعر ادیب دانشور لوگ ساتھ دیں گے تو حکومت پر دباؤ بڑھے گا اور انصاف کی توقع کی جا سکے گی ، کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟ آنے والے کچھ دن بتائیں گے مشال کہ تم ہمیں یاد رہو گے یا ہم تمہیں بھلا دیں گے۔ جو یاد رہے تو ہم سب ایسا دن دیکھنے کے خواہشمند ہوں گے جہاں حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو، کیوں بھی کہنے کی اجازت ہو اور کیسے بھی کہنا جرم نہ ٹھہرے اور زندگی کے دروازے ہم سب پر کُھلیں۔ اگر ہم بھول گئے تو تم سمجھ جانا اور راشد رحمان کو بھی بتا دینا کہ ایک بار پھر ہم ایسے قاتل کا کچھ نہیں کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).