تحریک الجہاد سے آپریشن ردالفساد تک


اللہ بخشے مرد مومن ، مرد حق کو جنہوں نے غرب اور عرب کے مشترکہ تعاون سے تیار کردہ لیب میں مجاہدین کی اعلیٰ نسل کے بیج تیار کیے۔ یہ بیج کراچی کی ساحلی مٹی سے لے کر پنجاب کے وسیع و عریض میدانوں اور افغانستان کی سنگلاخ چٹانوںتک ہر جگہ اگنے اور پھلنے پھولنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ پاکستان چونکہ اسلامی وزرعی ملک تھا لہٰذا ذرا نم نے مٹی کی زرخیزی دگنی چوگنی کر دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے چارسو مجاہدین کی رنگارنگ فصلیں لہلہانے لگیں۔ چیچنی ، ازبکی، شامی، لبنانی، السعودی، الکویتی، سوڈانی اور کچھ لشکری خالصتاً پاکستانی فصلیں بھی۔ تھوڑی بہت جو جگہ رہ گئی تھی وہاں افغان مہاجرین کے لاکھوں خیمے لگ گئے۔ افغانستان میں گھس بیٹھئے مارکسی کافر کو نکالنے کے لیے امریکی کافر اندھا دھند اپنا سرمایہ اور مسلمان جان خرچ کرتے رہے۔ ایک خوف پیدا کیا گیا کہ اگر سفید ریچھ کو افغانستان میں نہ روکا گیا تو وہ کچھ عرصے بعد پاکستانیوں کا خون بھی چاٹے گا ، اس سے پہلے کہ وہ گرم پانیوں تک پہنچے اسے افغانستان ہی میں ٹھنڈا کر دیا جائے اور ہوا بھی یہی ۔ ملحد روسی اپنا بچا کھچا سامان سمیٹ کر واپس سدھار گئے جہاں لخت لخت ملک ان کا منتظر تھا۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ افغانیوں کو جہاد کا پھل ملتا ، ایک پرامن حکومت تشکیل پاتی، افغان مہاجرین اپنے گھروں کو واپس جاتے لیکن ان لوگوں کی بات سچ ہونے لگی جو اس جہاد کو اقتدار اور اختیار کا کھیل کہتے تھے ۔ دن رات جہاد کی آیات کا ورد کرنے والے جنگجو قبائل اب کابل کابل کا ورد کرنے لگے۔ وہ گولہ بارود جو روسیوں کو سبق سکھانے اور اڑانے کے لیے تھا اس سے افغانوں ہی کے چیتھڑے ہونے لگے۔پہلے کافر بامقابلہ مسلمان تھا اب مسلمان کا مسلمان ہی سے مقابلہ ہونے لگا ۔بندوق افغانوں کا تو زیور تھی ہی افغان جہادکی بدولت پاکستانی بھی اس آہنی زیور سے آشنا ہوگئے ۔ پہلے ہمارے یہاں چھوٹے موٹے جھگڑوں پر ڈنڈے سوٹے نکلا کرتے تھے اب اس کی جگہ کلاشنکوفیں لہرائی جانے لگیں۔ وہ نوجوان جو سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہوا کرتے تھے اب وہ ہیروئن کو منہ سے لگا کر خود کو ہیرو سمجھنے لگے۔ اور تو اور دینی طبقات کی زندگی بھی یکسر تبدیل ہو گئی۔ وہ علمائے کرام جو کبھی علم و آگہی اوراپنی دینی خدمات پر فخر کیا کرتھے تھے ، اب ڈبل کیبن گاڑیاں اور مسلح گارڈز کی موجودگی ان کے لیے افتخار کی علامت بن گئی ۔ یہاں تک کہ کچھ ایسی دینی شخصیات جو عام طور پر خود کو سیاسی کثافتوں سے دور رکھتی تھیں، انہیں بھی یاد آگیا کہ وہ خواہ مخواہ دین کو سیاست سے الگ کرکے چنگیزیت کو فروغ دے رہے ہیں، اب انہوں نے بھی کسی مدرسے کے بجائے پارلیمنٹ کو چلانا زیادہ ثواب کا کام سمجھا ۔

روسی شکست پر امریکیوں کے دل تو ٹھنڈے ہو گئے لیکن افغانستان میں لگی آگ ٹھنڈی نہ ہوسکی، ہم نے اپنی بساط کے مطابق کوشش کی کہ افغان جنگجو سردار کسی متفقہ فارمولے پر آجائیں لیکن حکمت یاروں کے سامنے ہماری حکمت سازی چل نہ پائی ۔ آخرکار یہی طے پایا کہ لوہے کو لوہا کاٹنے کا فارمولا آزمایا جائے ۔ اس مقصد کے لیے مدارس سے نوجوانوں کی نئی اور تازہ دم سپاہ تیار کی گئی ۔ سوچا یہی تھا کہ یہ نوجوان دستے نہ صرف سر پھرے افغان سرداروں سے نمٹےں گے بلکہ آئندہ بھی جب اور جہاں ان کی ضرورت پڑے گی کام آئیں گے لیکن منصوبوں کے نتائج ہمیشہ مرضی کے تو نہیں نکلتے۔ ان جنگجوو¿ں کے سائے اتنے اونچے ہوگئے کہ وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے ۔ وہ وقت بھی آیا کہ ان کے سامنے ہمارے بہادر جوانوں کے عسکری قد بھی چھوٹے پڑنے لگے ۔ صاف دکھائی دینے لگا کہ پانی گردن تک پہنچ گیا ہے لیکن ہم سوچ رہے تھے سر ابھی دور ہے ۔ لبرل ازم کی دعوے دار پیپلزپارٹی کا زمانہ آیا تو اس وقت کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے انہیں اپنا ’بے بی‘ مان کر گود لے لیا۔ ان کی جنگی اور شکمی فیڈ کا پورا پورا خیال رکھا ۔ کابل پر جھنڈا گاڑنے پر طالبان سے زیادہ خوشی مارگلہ کے پہلو اور وادی کوئٹہ میں منائی گئی ۔ بدبخت نائین الیون نے ساری گیم ہی پلٹ دی۔ ہمارے سابق کمانڈو صدر نے صرف ایک فون کال پر کمانڈو ایکشن دکھاتے ہوئے سرپرست کے خانے سے اپنا نام راتوں رات نکال لیا ۔ طالبوں کی طلب چٹکی بجاتے ختم ہو گئی۔ مفاد بدلا تو ہماری آنکھیں بھی اپنی جگہ بدل کر ماتھے سے جا لگیں ۔ اندرونی اور بیرونی پالیسیاں اتنی سرعت سے تبدیل ہوئیں کہ عوام کا ایک بڑا حصہ کنفیوژن، مخمصے اور ابہام کا شکار ہو گیا، کون اپنا ہے ، کون غیر؟ کون غلط ہے کون درست ؟ قوم میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہی جاتی رہی۔

جنہیں ہم اپنا بچہ کہتے تھے وہ باغی ہو گئے اور پوری قوت سے پلٹ کر وار کرنے لگے۔ تب جا کر ہمیں احساس ہوا پرائی نہیں پہلے اپنی نبیڑنی چاہیے۔ اب ملک کے کونے کونے میں ’سب سے پہلے پاکستان‘ کا نعرہ گونجنے لگا ۔ ہماری ریاست کوپہلی مرتبہ اپنی بقا مسلح جتھوں کے بجائے روشن خیالی اور باہمی رواداری میں نظر آنے لگی۔ زبان سے نہ سہی لیکن دل میں ہم نے مان لیا کہ دفاع صرف دفاعی اداروں ہی کا کام ہے ۔ اعتدال پسندی کی وہ دستار جو ہم بہت پہلے کہیں رکھ کر بھول گئے تھے دوبارہ سر پر سجانے کا خیال آنے لگا ۔ مصیبت یہ ہوئی کہ پہلے تو ان کے لیے جنت کی کھڑکی صرف افغانستان میں کھلتی تھی اب اس مقدس حلقے میں ارض پاکستان بھی شامل ہوگئی ۔ ہماری عبادت گاہیں ، تعلیمی ادارے ، ایئرپورٹس ، فوجی چوکیاں ، اسلحہ ساز فیکٹریاں،پارکس ، گلیاں، بازار الغرض کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں سے ہم نے بے گناہوں کی لاشیں نہ اٹھائی ہوں۔ حد تو یہ کہ ایک پی ایس ایل کا میچ کرانا ہمارے لیے جان جوکھوں کا کام ہوگیا ۔ 50 ہزار جانیں گنوانے کے بعد جا کر ہم نے مانا ہے کہ ہمسائے میں آگ لگی ہو تو اسے ہوا دینے میں نہیں بجھانے میں عافیت ہوتی ہے کیونکہ آگ کی لپٹیں کسی وقت بھی آپ کے گھر تک پہنچ سکتی ہیں۔ 80ء کی دہائی میں ہم نے جہادکا جو سفر شروع کیا تھا ، آج 37 سال بعد’ردالفساد‘ پر ختم کر رہے ہیں۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ اس سارے سفر میں سوائے تباہی و بربادی کے ہمارے ہاتھ کیا آیا ہے ؟ کیا باشعور قومیں غلطی کا ادراک کرنے میں اتنی دیر لگاتی ہیں ؟ کہتے ہیں بے وقوف بھی کام عقلمندوں والا ہی کرتا ہے لیکن نقصان اٹھانے کے بعد۔ ہم بے وقوف قوم ہیں یا عقل مند، یہ فیصلہ آپ پر چھوڑا ….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).