بیٹا قاتل وجاہت خان اور بیٹی خود کش نورین لغاری


کیا مقام پایا ہے ہم نے۔ 72 گھنٹے میں دو انکشافات، بیٹا وجاہت خان اور بیٹی نورین لغاری۔ وجاہت اور نورین کوئی وکھری یا اکلوتی مثالیں نہیں ہیں بلکہ یہی کچھ چل رہا ہے۔ ہر گھر میں وجاہت پالنے کی کوشش ہے اور ہر گھر میں نورین پروان چڑھ رہی ہے۔ یہ قصہ کوئی مدرسے یا لال مسجد کے طالب علموں تک محدود نہیں بلکہ یونیورسٹیاں اور میدیکل کالج بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ لیکن اس میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہم نے جو بویا ہے وہی کاٹ رہے ہیں۔ یہ زبردست کامیابی ہے اس ماحول کی جو ہم نے تخلیق کیا ہے۔ یہ کامیابی ہے ہمارے ان مذہبی رہنماؤں کی جو ہمارے بچوں کو جہاد کے راستے پر ڈالتے ہیں اور انہیں خود کش جیکٹیں پہننے کے لئے تیار کرتے ہیں۔

یہ کامیابی ہے ہمارے ان شعلہ بیان ٹی وی اینکرز کی جو ہر خود کش دھماکے کے بعد مرنے والوں کے لئے مغفرت اور ان کے لواحقین کے لئے صبر کی دعائیں کرتے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ واقعے کا دفاع بھی کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں یہ ٹی وی اینکرز اپنے نوجوان فالورز کو اس بات کی کھلم کھلا ترغیب دیتے ہیں کہ ان کے مذہب کے خلاف سازشیں ہو رہی اور وہ ان سازشوں کو پکڑیں، ان سازشیوں کو سبق سکھائیں۔ وہ چیخ چیخ کر یہ بتاتے ہیں کہ یہ ہماری دینی غیرت کا تقاضا ہے۔

وہ ہمارے نوجوانوں کو رواداری اور قانون کا احترام نہیں سکھاتے بلکہ قانون ہاتھ میں لینے پر اکساتے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ دوسروں کے بچوں کو خودکش جیکٹیں پہنانے والے نام نہاد مذہبی رہنما اور دہشت گردی کا دفاع کرنے والے کالم نگار اور ٹی وی اینکرز کے اپنے بچے اکثر امریکہ ہی سے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور دنیا میں کہیں بھی نوکریاں کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے نوجوان پھر بھی ان سے یہ سوال تک نہیں کرتے۔ یہ سوال کرنے کی طاقت کی موت تو شاید سب سے بڑا نقصان ہوا ہے۔

وجاہت یا نورین کسی گھر سے بھی نکل سکتے ہیں۔ آئی ایس پی آر کی وارننگ بالکل ٹھیک ہے اور اس کو سنجیدگی سے لینا ضروری ہے۔ لیکن کریں کیا کہ ہمارے نوجون باقی ساری دنیا کے نوجوانوں کی طرح موت کی بجائے زندگی کو ترجیح دیں۔ کیا ہو کہ ہمارے معاشرے میں بھی پیار اور امن ایک مرتبہ پھر نفرت اور تشدد کی جگہ لے لے۔

اگر ہم اپنی پچھلی چالیس سالہ تاریخ سے نہیں سیکھنا چاہتے تو چلو بھارت کی پچھلے چند سال کی تاریخ سے ہی سیکھ لیتے ہیں۔ بھارت پر مذہبی انتہا پسند پارٹی کی حکومت آئی ہے اور سیکولرازم کمزور پڑنا شروع ہوا تو مذہبی انتہا پسندی اور تشدد میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ بھارت کے انتہا پسند مذہبی لیڈروں کی باتیں ساری دنیا میں مذاق بنی ہوئی ہیں۔

گوشت کھانے پر پابندی اور گائے ذبح کرنے پر انسانوں کو موت کی سزا، یہ وہ باتیں ہیں جس کے نقصانات انہیں نظر نہیں آتے جو یہ کر رہے ہیں لیکن ساری دنیا کو خوب نظر آتے ہیں۔ اپنی طرف سے وہ اپنے مذہب کی بڑی خدمت کر رہے ہیں اور دنیا میں اس کا بول بالا کر رہے ہیں اور انہیں اس پر فخر بھی ہے۔ لیکن اصل میں تو جب بھی کوئی انتہا پسند ہندو اس بات کی دھمکی دیتا ہے کہ جس نے گائے ذبح اس کو قتل کر دیا جائے گا تو بھارت کی ساری دنیا میں جگ ہنسائی ہوتی ہے۔

اسی طرح سے جب کوئی ہندو مذہبی لیڈر کہتا ہے کہ ہندوؤں کے مذہب چھوڑنے یا تبدیل کرنے پر پابندی ہونی چاہیئے تو ساری دنیا میں لوگ بھارت کے بارے میں کیا تاثر لیتے ہیں۔ ہم خود بھارت کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ اس کی عزت میں اضافہ ہوا ہے کمی۔ صرف بھارت ہی نہیں ایسی حرکتوں سے ہندو مذہب کا مقام بھی دنیا میں خراب ہوا ہے اور اگر یہی حال رہا تو مزید خراب ہو گا۔ مذہب کی بنیاد پر انتہا پسندی اور تشدد بڑھنے سے ہندو مذہب کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔

یہ بات بہت اہم ہے کہ جونہی بھارت میں بی جے پی کی حکومت آئی اور سیکولرازم کمزور پڑا تو ہندو نوجوان خود بخود انتہا پسندی اور تشدد پر اتر آئے۔ یہ سارا قصور اس روش کا جو حکومت نے معاشرے میں چلا دی ہے۔ اگر بھارت میں چند برس میں یہ روش چل پڑی ہے تو اپنے ملک کا اندازہ لگائیں جس میں مذہبی انتہا پسندی اور تشدد کی ترغیب چار دہائیوں سے جاری ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ ہم مذہبی انتہا پسندی اور تشدد سے پاکستان کی خدمت کر رہے نہ اسلام کی۔ جس طرح بھارت کی انتہا پسندی اور تشدد سے بھارت اور ہندو مذہب کا نقصان ہو رہا ہے اسی طرح ہماری انتہا پسندی اور تشدد کی ترغیب سے ہمارے ملک اور مذہب کا بہت نقصان ہو رہا ہے۔ بلکہ بہت نقصان ہو چکا ہے۔

اگر ہم انتہا پسندی اور تشدد سے اپنے بچوں کو بچانا چاہتے ہیں تو انہیں یہ سکھائیں کہ مذہب ذاتی معاملہ ہے اور کسی کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے۔ اپنے بچوں کو موت کی بجائے زندگی سے پیار سکھائیں۔ اپنے بچوں کو سوال کرنا سکھائیں تاکہ وہ سنی سنائی باتوں اور بے بنیاد جھوٹے اور کھوکھلے نعروں کا شکار نہ ہو جائیں۔ جو انہیں تشدد پر اکسائے اس پر سوال کر سکیں۔ ہمارے نوجوان ان شعلہ بیان اینکرز سے سوال کر سکیں کہ ہم نے دنیا پر غالب کیوں آنا ہے جناب؟

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik