درس گاہوں سے چن چن ہمارے علم۔۔۔۔


  اس وقت مجھے رہ رہ کر ملکی درس گاہوں میں دی جانے والی تعلیم اور حالیہ چند برسوں میں ان میں رونما  ہونے والے واقعات کے تناظر میں یہ سوچ کھائے جا رہی ہے کہ جو تعلیم ہمیں صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کا شعور نہ دےسکے، وہ تو رائیگانی، زیاں اور  اتلاف کی سعی ہی قرار پائے گی۔

 ایک سوچ نے چند روز سے پریشان کر رکھا ہے۔ مجھے بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی کا نوجوان پروفیسر جنید حفیظ یاد آ رہا ہے جو اس وقت ساہیوال جیل کے اندھیرے میں بیٹھا اپنی روشن خیالی اور تنقیدی نقطہ نظر کو کوس رہا ہو گا، کہ ابھی تو پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز ہی ہوا تھا اور کیا ضرورت تھی اس قوم کے زنگ آلود دماغوں پر ریگمال چلانے کی، بلاوجہ شہد کی مکھیوں میں ہاتھ ڈال دیا، اب نتیجہ بھگت رہا ہے۔

 مگرذرا ایک لمحے کو ٹھریے، اور سوچیئےکیا درسگاہیں دماغوں کو زنگ آلود کرنے اور ان میں نفرتوں کا تعفن بھرنے کے لئے قائم کی جاتی ہیں؟ یا انکا مقصد نوجوانوں کو کم نگاہی کے اندھیروں سےنکال کر ان میں خِرد اور تنقیدی سوچ کو پروان چڑھانا ہے؟

 مملکِت خداداد میں متنازع موضوعات پر بحث کرنے کی رتی برابر گنجائیش موجود نہیں، بلکہ عدم برداشت کے تقاضے پاکستانیوں کو مجبور کرتے ہیں کہ اختلاف رائے کو بھی مخالفت ہی سمجھا جائے۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ یہاں اختلافی یا متنازع موضوعات پر سوال اٹھانا، یا پھر “مملکتِ خداداد” میں موجود مقدس گائیوں یا ان سے متعلق معلامات کو تنقید کا نشانہ بنایا جانا ناقابل قبول سمجھا جاتا ہے۔

 ایک عرصے سے مذہب کا غلط استعمال ہوتا آ رہا ہے۔ مذاہب مین دلچسپی نہ رکھنے والوں کی اکثریت بھی شاید اس بات سے کم ہی اختلاف کرے کہ مذاہب کو ہر مسئلے میں قصور وار ٹھہرانا درست نہیں، بلکہ اختلاف مذاہب کے ٹھیکے داروں پر ہوتا ہے جو مذاہب کی تعلیمات کی غلط تشریح کرتے ہیں اور ان پر اندھا دھند اعتماد کرنے والوں کی معصومیت یا کم علمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے معصوم لوگوں کے خون سے ہولی کھیلنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ نعرہ یہ لگایا جاتا ہے کہ مذہب خطرے میں تھا اور مذہب کے محافظوں کے وہ کام کردکھایا ہے جس میں ریاست ہمیشہ ناکام رہتی ہے۔گویا خون بہانا لازم ہوتا ہے، اور ریاست نرم دلی سے کام لیتی ہے۔

 مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں ایک اور روشن خیال نوجوان مشال خان کو مذہب کے نام پر قربان کرنے کے لئے اک مشتعل ہجوم نے عدالت لگائی۔ عدالت کی کارکردگی کا کیا کہنا، انصاف کرنے والے منصفوں نے ملزم کو اتنا موقع بھی نا دیا کہ وہ خود کو بے گناہ ثابت کرسکتا۔ اور تو اور منصفوں نے سزا نافذ کرنے کے لئے ریاستی قانون کا سہارا تو لیا، مگر نیکی کے اس کام میں جلدی اتنی تھی کہ اسی ریاست کے بتلائے قانونی تقاضے پورے کرنا مناسب نا سمجھا، لہٰذا ثبوتوں اور گواہوں کو در خور اعتنا نہین سمجھا گیا۔

 واقعے کو درجنوں گھنٹے گزر گئے مگر سوشل میڈیا پر طوفانِ بدتمیزی ہے کہ تھمنے میں نہیں آ رہا۔ اور تو اور ٹی وی پروگراموں میں ہونے والے بحث و مباحثوں میں بھی عوام مسلسل ریاست کو ہی آڑھے ہاتھوں لے رہی ہے۔ ایک پروگرام میں تو ایک فلمی ماں نے بھرپور رونادھونا بھی کرڈالا اور جوابی بیانیے کی ضرورت کا نعرہ بلند کرنے والے وزیراعظم کو بھی خوب دھویا۔ مگر عوام کا یہ ردعمل درست نہیں، کیونکہ یہاں سوال کرنے کی اجازت کسی کو نہیں ہے۔ اور نہ ہی ریاستی قوانین پر کوئی اعتراض کرسکتا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ریاست کو ایسے واقعات کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے، منصفوں کے ہجوم کو موقع پر انصاف کرنے ریاست نے تو نہیں بھیجا تھا۔ اور ناہی ریاست نے ایسا کوئی قانون ترتیب دیا جو ایسا انصاف کرنے پر منصفوں کی فوج کو اُکساتا ہے۔

 دل دہلا دینے والے واقعے نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے، کہ “ملکِ خداداد” میں کسی کو بھی سوال کی اجازت نہیں اور ناہی کوئی ظلم کے خلاف آواز اٹھا سکتا ہے۔ فیض سچ ہی کہ گئے

 نثارمیں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں

 چلی ہے رسم کہ کوئی نا سر اٹھا کے چلے

جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے

نظرچراکے چلے،جسم وجاں بچا کےچلے

 اور ملکی درسگاہوں پر یہ سوال اٹھانا کہ آیا یہ درسگاہیں ہیں یا مقتل گاہیں؟ اس کی بھی قطعاْ گنجائش نہیں کیوں کہ یہاں زیرتعلیم اکثریت ان مسلمانوں کی ہے،جو پہلے ہی سے بہت روشن خیال ہیں اور  تمام انسانیت کے علم بردار ہیں۔ تاہم اپنے دین کو خطرات میں گھرا ہرگز نہیں دیکھ سکتے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس دین کی حفاظت کا وعدہ عرش پہ بیٹھی ذات نے کیا تو ہے، مگر مشال خان کو انصاف فراہم کرنے کا ٹھیکہ شاید ان روشن خیال پاکستانی مسلمانوں ہی کو سونپا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).