سٹیٹ بلڈنگ اور نیشن بلڈنگ


(اعجاز حسین)

کسی بھی حکومت کی جو دو سب سے بڑی ذمہ داریاں ہوتی ہیں، ان میں ایک سٹیٹ بلڈنگ ہے اور دوسری نیشن بلڈنگ۔ سٹیٹ بلڈنگ کے مظاہر ہم گاہے بگاہے دیکھتے رہتے ہیں جیسا کہ آ ج کل اس کی سب سے بڑی مثال سی پیک منصوبہ ہے ، سڑکیں بنتی ہیں، پل بنائے جاتے ہیں، فیکٹریاں قائم کی جاتی ہیں ، بجلی کی فراہمی، ڈیم، گیس کے منصوبے غرض ہر طرح کے روزگار کی فراہمی نہ صرف یہ کہ حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے بلکہ اسی سٹیٹ بلڈنگ کا حصہ ہے۔ ہر حکومت آج کل اسی نعرے پر زندہ ہے بلکہ اپوزیشن بھی سٹیٹ بلڈنگ کی انہی بھول بھلیوں میں الجھ کر اب خود بھی میٹرو بس کے جنگلے میں پھنسنے جا رہی ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ایک بہت بنیادی اور اہم ذمہ داری جو نہ صرف حکومت کی بلکہ کئی حوالوں سے اس کا اطلاق اپوزیشن پر زیادہ ہوتا ہے ، وہ نیشن بلڈنگ ہے۔

آج ہم ایک ایسی بے ترتیب قوم کے حوالے سے جانے جاتے ہیں ، جو کسی اخلاقی پیمانے پر پورا نہیں اترتی، ٹریفک کے قوانین پر عمل کرنے والا بے وقوف اور رشوت نہ لینے والا احمق کہلاتا ہے۔ ملاوٹ ، ذخیرہ اندوزی، لوٹ مار، جعلی ادویات، غنڈہ گردی، بھتہ ، زمینوں پر قبضہ وغیرہ وغیرہ وہ جرائم ہیں کہ جن کی اب رپورٹ بھی نہیں کی جاتی۔ میڈ ان پاکستان کا مطلب گھٹیا یا دو نمبر مال ہے۔ ہم نے جس ملک کو انگریزوں سے قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا آ ج ہر شخص اسی انگریز کے ملک کی شہریت حاصل کرنے کو مرا جا رہا ہے، اسی گورے کے ایئرپورٹ اور ملک میں ہمارے ساتھ جو رویہ روا رکھا جاتا ہے وہ کسی دشمن کی سازش نہیں ہمارے اپنے کرتوت ہیں، اخلاقی پسماندگی کے جس گڑھے میں گر کر ہم آج جس طرح اپنے ملک کی بدنامی کا سبب ہیں بالکل اسی طرح آج ہم مذہب کے معاملے میں بھی بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ ہم نے اپنے مذہب کے ان تمام تقاضوں کو پس پشت ڈال کرکہ جن کا حکم ہمیں قرآن اور حدیث سے ملتا ہے ، اس قسم کے مسائل میں گھر چکے ہیں جہاں ہم نہ صرف یہ کہ اپنے مذہب کو بدنام کرنے کا باعث بن رہے ہیں بلکہ کتنے ہی لوگوں کو مذہب سے بیزار کرنے کا سبب بن رہے ہیں، اس دنیا میں تقریباََ تمام ہی غیر مسلم قوموں کو ہم سے چڑ ہو گئی ہے، ہم پر نظر رکھنا وہ اپنا قومی اور انسانی فریضہ سمجھتے ہیں ، کوئی بھی ہم کو ایک نارمل انسان سمجھنے کو تیار نہیں ہے، دنیا میں کہیں کوئی دھماکہ یا فائرنگ کا واقعہ ہو جائے تو ہر کوئی اس خدشے میں مبتلا نظر آتا ہے کہ کہیں کوئی پاکستانی تو ملوث نہیں۔ مشال خان ہو یا سلمان حیدر، سلمان تاثیر ہو یا شہباز بھٹی ایک ہی نعرہ سنائی دیتا ہے، برداشت اور رواداری کی بات کرنے والے کو بے غیرت کہا جاتا ہے۔

یہ سب اچانک تو نہیں ہو گیا۔ نہیں یہ سب اچانک نہیں ہوا، حالات نے برسوں اس کی پرورش کی ہے ، جب گھر کا سربراہ اپنے بچوں کی تربیت نہیں کرتا تو پھر اس کی تربیت گلی کے آوارہ لونڈے کرتے ہیں۔ میرے ملک کے بچوں کی تربیت بھی ایسے ہی آوارہ نظریات کر رہے ہیں ، جن کا تعلق نہ ملک سے ہے نہ دین سے، اس ملک کا ہر سر براہ ہمیشہ دال روٹی کے انتظام میں مصروف نظر آ یا، اسے کبھی اس بات کی پرواہ نہیں رہی کہ اسکی اولاد کس ماحول میں پرورش پا رہی ہے، کبھی ہندوستان سے نفرت کی بنیاد پر اس کی تربیت کی گئی ، کبھی سرخ ریچھ سے ڈرا کر جذبہ ایمانی کو اپنے حساب سے ابھارا گیا۔ پاکستان بننے سے لے کر آ ج تک ہم کسی نہ کسی سے نفرت کی بنیاد پر ہی پروان چڑھائے گئے۔ آج پوری دنیا نے ہمارے اطراف دیواریں کھڑی کر کے اس ساری نفرت کو ہم تک محدود کر دیا ہے، آج ہم اپنے ہی خون کے پیاسے ہیں ، اس لئے کہ اس بدقسمت قوم کی نیشن بلڈنگ ہمیشہ نفرت کی بنیا د پر کی گئی، ہم مردہ باد ،مردہ باد سن کر بڑے ہوئے۔ اتنا شور کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دی، حکومت کی لاتعلقی اور لاپرواہی کا جہاں غیروں نے فائدہ اٹھایا وہیں اس ملک کے مذہبی وڈیروں کو بھی نوجوان خام مال کے استعمال کا ناد ر موقع ملا۔ جگہ جگہ نفرت کی نرسریاں کچے ذہنوں کو زہر آلود کرتی رہیں ، مسجد کا منبر آگ اگلنے لگا، اسی طرح سیاسی بتوں نے بھی جلسے کا مائیک پکڑ کر لوگوں کو مخالف کی اہانت پر اکسانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا، کبھی مخالف کی شلوار اتارنے کی بات کی جاتی ،کبھی ان کی ماں بہنوں پر کیچڑ اچھالا جاتا، نتیجے میں عدم برداشت کا ایک ایسا ماحول گرم ہے جو کسی کی بھی زندگی جلا کر راکھ کر سکتا ہے۔

سٹیٹ بلڈنگ کے ساتھ مثبت نیشن بلڈنگ کیا جادو کر سکتی ہے اس کا واضح ثبوت ہم امریکی اور یورپی ممالک میں دیکھ سکتے ہیں، چین اور ملائشیا اسکی ایک روشن مثال ہیں، بدترین مثالوں میں وسطی افریقہ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے جہاں انگریز نے قبائلی معاشرے کو جبری حد بندیوں کی نذر کرنے کی کوشش کی جبکہ افریقہ سترہویں صدی تک ان تمام حد بندیوں سے آزاد تھا، ان جبری حد بندیوں سے کئی ملک تو وجود میں آ گئے مگر کسی بھی قسم کی نیشن بلڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ کئی دہائیوں سے خونی اختلافات، خانہ جنگی ، بھوک اور معاشی پستی کا شکار ہیں۔

دنیا کی تاریخ اور حال ہمارے سامنے ہیں ، اگر ہم نے کسی بھی جوابی بیانیہ کو اپنا کر اسے سرکاری سطح پر نافذ نہ کیا ، عوام کی تربیت کا انتظام نہ کیا گیا، قانون کو بے رحمی کے ساتھ نافذ نہ کیا گیا، اگر ہم چنگ چی مافیا سے لے کر ینگ ڈاکٹر مافیا ہر ایک سے مذاکرات کرتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب کوئی بھی گروپ اتنا طاقتور ہو جائے گا کہ وہ حکومت کی رٹ کو چیلنج نہیں بلکہ رد کردے گا، آج لوگ جھوٹے الزام کے نعروں کے ذریعے مارے جا رہے ہیں، آنے والے کل میں شاید س سکا تکلف بھی نہ کیا جائے، ابھی بھی وقت ہے کہ شاید ہم اپنے بچوں کا مستقبل محفوط کرسکیں، اچھی معاشی زندگی تو بعد کی بات ہے کم از کم عزت سے زندہ رہنے کا ماحول ہی دے سکیں، ابھی بھی وقت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).