اب کوئی آئے تو کہنا کہ۔۔۔ مشال خان تو چلا گیا


مشال خان کے مرقد کی مٹی سوکھنے لگی ہے۔ مجرموں کے گرد گہرا تنگ ہورہا ہے۔ اب تک کی کارروائی اطمینان بخش ہے۔ عمران خان صاحب کا دوٹوک موقف لائق تحسین ہے۔ مشر اسفندیارخان اس بلند آہنگی سے منظر میں آئے ہیں کہ شکوے دھل گئے۔ حکمران قیادت کو البتہ خاموشی چاٹ گئی ہے۔ چوہدری نثار علی خان نے جنوری کے وسط سے جو تحریک اٹھا رکھی تھی وہ برگ وبارلائی ہے۔ سچ یہ ہے کہ حیرانی نہیں جاتی۔ بہت کچھ ہوچکا، بہت کچھ ہونا ابھی رہتا ہے۔ اتنے میں کچھ غورطلب پہلووں پر کیوں نہ بات ہوجائے۔

ماں نے ابھی مشال کی شکستہ انگلیاں چومی بھی نہیں تھیں کہ ایک بات تکرار سے کہی گئی۔ کہا گیا، عدالتیں اگر اپنا کام کرتیں تو لوگ سڑکوں پہ خود سے فیصلے نہ سناتے۔ ٹھیک، مگر ذہن میں کچھ واقعات گھوم جاتے ہیں۔ صورت حال سامنے رکھے دیتے ہیں دوست جائزہ لے لیں۔

جنید جمشید نے اپنے ماحول میں کچھ الفاظ کہے تھے۔ مسلمانوں کے ایک طبقے کو ناگوار گزرگئے تھے۔ جنید جمشید نے ایک وڈیو میں اپنے الفاظ کا مفہوم بیان کیا۔ دل آزاری پہ معافی مانگی۔ دل اس طور دکھے ہوئے تھے کہ مطئن نہ ہوئے۔ جنید جمشید نے دوبارہ اور سہہ بارہ اپنے کہے کی وضاحت کی۔ وضاحت قبول نہیں کی گئی۔ جنید جمشید کو ملک چھوڑنا پڑگیا۔ مدت بعد واپس لوٹے تو اہل خانہ سے پہلے مسلمانوں کا شکستہ دل گروہ ہوائی اڈے پہنچا۔ رات چڑھے کیمروں کی آنکھ کے سامنے جنید جمشید پر تشدد کیا۔ سوال ہے کہ کیا اس رویے کے پیچھے عدالتی کوتاہیاں کارفرما ہیں؟ دیکھیے، اس پورے معاملے میں ایک اخلاقی مشکل درپیش ہے۔ وہ مشکل یہ ہے کہ کہنے والے کے کہے کا مطلب کیا تھا، یہ کہنے والا نہیں بلکہ سننے والا طے کررہا ہے۔ دوستوں کے اس رویے کا سبب کیا واقعی یہی ہے کہ عدالتیں اپنے فرائض ٹھیک سے انجام نہیں دے رہیں؟

اسی بات کو مزید واضح کرنے کے لیے ایک اور کیس لیتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں چار بلاگرز کچھ دیگر ساتھیوں سمیت لاپتہ ہوئے۔ سماجی ذرائع ابلاغ پر قائم شرعی عدالتوں نے فیصلہ سنا دیا کہ یہ سب اہانتِ مذہب کے مرتکب تھے۔ دلیل؟ دلیل فقط یہ کہ ان کے گرفتار ہوتے ہی کچھ ایسے پیجز بلاک ہوئے جن پر نفرت انگیزمواد شایع ہوتا تھا۔ احباب نے ماورائے عدالت اقدام کی حمایت کی۔ بلاگرز بخیریت اپنے گھر پہنچ گئے۔ احباب نے بلاگرز پر مقدمہ قائم کردیا۔ احباب کی نظر میں انصاف کرنے والی عدالت جسٹس جناب شوکت عزیزصدیقی صاحب کی ہوسکتی تھی۔ وکیل بھی وہ تھے جج صاحب کے آنسووں کی قسم کھاتے تھے۔ ہر حوالے سے قلمدان لائق اعتبارتھا۔ سو شنوائی وہیں ہوئی۔

ناکافی شواہد کی بنیاد پر مقدمہ خارج ہوگیا۔ یعنی جن اداروں نے اٹھایا انہوں نے رہا کردیا۔ جس عدالت میں پیش کیے گئے، اس نے بری کردیا۔ اس سب کے باجود ان بلاگرز پر اہانتِ مذہب کا لیبل قائم ہے۔ اب یہ ایک اخلاقی بحران ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس اخلاقی بحران کے پیچھے کیا عدالت کی کوتاہی کام کررہی ہے؟ اگر ہاں، تو پھر دوستوں نے ذہن میں ایسی کون سی عدالت سوچ رکھی ہے جہاں انصاف ممکن ہے۔ ایسا انصاف کہ جس کے بعد عشاق کے قافلے چوراہوں پہ عدالتیں لگانے سے باز آجائیں؟

مکرر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس جملے کا مطلب کیا ہوا کہ عدالتیں اگر اپنا کام کررہی ہوتیں تو لوگ کسی مشال کو یوں قتل نہ کرتے۔؟ اس جملے کا کچھ تجزیہ تو دوست کریں، کچھ اپنے فہم کے مطابق میں ہم کیے دیتے ہیں۔ اس جملے کا جو مطلب ہمیں سمجھ آتا ہے وہ یہ ہے

“جس کو ہم گستاخ قرار دے دیتے ہیں، اگر عدالتیں بنا کسی ثبوت و شواہد کے انہیں پھانسی چڑھا دیا کرے تو ہم یوں سڑکوں پرعدالتیں لگانے سے باز رہیں گے”

بات یہ ہے کہ عدالتوں میں رمشا مسیح کا کیس بھی آیا تھا۔ الزام تھا کہ اس نے قرآن کے اوراق جلائے ہیں۔ مدعی مولوی خالد جدون تھے۔ مولوی صاحب کے دو حافظ قرآن دوستوں نے عدالت میں بیان دیا کہ رمشا مسیح کو پھنسانے کے لیے قرآن کے اوراق خود مولوی خالد جدون نے جلائے تھے۔ دوست کی گواہی پر رمشا بری ہوگئی، مگر دوستوں کے دیوان میں وہ اب بھی ملعونہ کے لاحقے کے ساتھ لکھی جاتی ہیں۔ دوستوں سے پوچھنا یہ ہے کہ اب یہاں عدالت کیا کرے؟ اس کو اس لیے ٹانگ دے کہ یہ مولوی خالد جدون کی خواہش ہے؟ یعنی کسی کا جرم ثابت ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ الزام لگانے والا ایک ایسا شہری ہے جسے اپنے زعم میں باقی معاشرے پر صالحانہ برتری حاصل ہے؟ کم سے کم درجے میں بھی یہ ہماری اخلاقی پسماندگی کا سوال ہے۔ اس پسماندگی ودرماندگی کے پیچھے کیا عدالتوں کی ناانصافیاں کھڑی ہیں؟

آسیہ کا کیس بھی عدالت میں ہی ہے۔ تمام ثبوت وشواہد بتاتے ہیں کہ کیس نہایت کزور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدالتیں اب اس کیس کو جلتا انگارہ سمجھتی ہیں۔ کوئی ہتھیلی پہ لینے کو تیار نہیں۔ پندرہ ماہ بعد سپریم کورٹ نے سماعت کے لیے وقت دیا۔ عین عدالت کے لگتے سمے جسٹس اقبل حمید صاحب نے بینچ میں بیٹھنے سے انکار کردیا۔ کریں بھی تو کیا کریں۔ سزا کے لیے شواہد مکمل نہیں ہیں، بری کرنے کی قیمت چکانی پڑے گی۔ جسے زندگی عزیز ہو وہ کہاں جائے؟

وکیلوں کے سامنے راشد رحمن کی مثال موجود ہے۔ جنہیں ان کے چیمبر میں گھس کر اس لیے قتل کیا گیا وہ توہین مذہب کے ملزم جنید حفیظ کے کیس کو فیصلہ کن موڑ تک پہنچا چکے تھے۔ ججوں کے سامنے جسٹس عارف اقبال بھٹی کی مثال موجود ہے۔ جنہیں اپنے چیمبر میں اس لیے قتل کردیا گیا کہ وہ ثبوت و شواہد نہ ہونے کی وجہ سے رحمت مسیح اور سلامت مسیح کے کیس میں وہ فیصلہ سنانے کی پوزیشن میں نہیں تھے جو دوست چاہتے تھے۔ جسٹس صاحب کو ثبوت چاہیئے تھے اور دوستوں کو لاش۔ لاش دینے سے انکار کیا تو جج صاحب کے خلاف عدالت لگا دی گئی۔ پوچھیے کیوں؟ جواب ہے کہ جج صاحب نے اگر انصاف کیا ہوتا تو لوگ جج صاحب کے خلاف عدالت کیوں لگاتے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).