مشال خان کا قتل اور موجودہ بیانیہ؟


چند روز قبل کسی نے لکھا تھا کہ موجودہ بیانیہ کیا ہے، یہ اگر پتا نہیں چلے گا تو اگلے بیانیہ کی تیاری کیسے ہوگی۔ بات بہت واضع ہے موجودہ بیانیہ وہی ہے جس کے تحت ولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کا بہیمانہ قتل ہوا۔ الزام لگا الزام کی تشہیر ہوئی اس کے بعد نہ آؤ دیکھا گیا نہ تاؤ جو چیز جس کے ہاتھ لگی اٹھا کر ہدف کی طرف لپک پڑے۔ جب پولیس اور یونیورسٹی انتظامیہ کا اجلاس جاری تھا اسی دوران مشال خان مذہبی درندگی کا نشانہ بن چکا تھا۔ مشال خان کے والد نے ایک جملے میں کہانی سمجھا دی۔ کہا میرا بیٹا قتل ہوچکا اب وہ واپس نہیں آسکتا مگر میری خواہش ہے کسی اور کا بیٹا مستقبل میں ایسی درندگی کی بھینٹ نہ چڑھے۔

مشعا ل خان کے والد کے اس جملے میں بیانیہ تبدیل کرنے کا مطالبہ صاف نظر آتا ہے۔ موجودہ بیانیہ کہتا ہے کہ مذہبی معاملات میں نہ کوئی سمجھوتہ کیا جائے گا اور نہ ہی ریاست کا عمل د خل تسلیم کیا جائے گا۔ یعنی مذہب کی توہین کا معاملہ ریاست تک جانے نہ پائے اس کا فیصلہ عوام خود ہی کریں گے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں الزام لگنے، عدالت سجنے، فیصلہ سنانے اور اس پر سختی سے عملدرآمد کرانے کے دوران ایک گھنٹے کا وقت بھی نہیں لگتا ہے۔ اس معاملے میں ریاست کے چاروں ستون مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور حتی کہ میڈیا بھی سب بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اتنا خوفناک بیانیہ ہے کہ اس کے تصور سے ہی ہر کسی کی ٹانگیں کانپتی ہیں۔ اس بیانیہ کی تیاری میں مہنے یا سال نہیں بلکہ عشرے لگے ہیں۔ سلیمان تاثیر سے لے کر شہباز بھٹی تک اور رمشا سے لے کر کو ٹ رادھا کشن کے مسیحی جوڑے تک کئی بے گناہ پاکستانی اسی بیانیہ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ توہین رسالت اور توہین مذہب کا جب قانون موجود ہے تو لوگ اس قانون کا سہارا کیوں نہیں لیتے۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا لوگ نظام انصاف پر اعتماد نہیں کرتے ہیں یا نظام انصا ف کی الجھنوں میں پھنسنے کی ذحمت نہیں کرتے یا پھر مذہبی معاملات کو قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ لوگوں کو نظام انصاف کی طرف رجوع کرنے کی عادت ہی نہیں ہے۔ موجودہ بیانہ میں یہ بات بھی واضح ہے کہ لوگ مذہبی جنونی ہونے کے ساتھ ساتھ نظام انصاف کو بھی اپنی جوتی کی نو ک پر رکھتے ہیں۔ لوگوں کو اپنے پر تشدد مسلمان ہونے پر جو گھمنڈ ہے وہ اسی بیانیہ کی مرہون منت ہی تو ہے۔

یہ بیانیہ اب گلی کوچوں تک محدود نہیں رہا یہ ملک کی بڑی درسگاہوں کے اندر سرایت کر چکا ہے۔ گذشتہ دنوں پنجاب یونیورسٹی سے شروع ہونے والا دنگا فساد مشال خان کے قتل تک پہنچ گیا ہے۔ آگے یہ کیا رخ اختیار کرے کا اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس بیانیہ کی سنگینی کو سمجھنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ ہجوم کو بس اطلاع ملنا کافی ہے اس کے بعد دنیا کی کوئی طاقت اس کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی۔ ایسے واقعات کے بعد پھر جب گلی محلوں میں اس پر تبصرے ہوتے ہیں تو عام لوگوں کو یہی سمجھایا جاتا ہے کہ گستاخ مذہب کا یہی انجام ہوتا ہے۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ معاملہ گستاخی مذہب کا نہیں قانون کی عملداری کا ہے۔ کوئی بھی ذی شعور کسی بھی عقیدے یا مذہب کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا اگر پھر بھی کسی پر ایسا الزام لگ گیا ہے تو اس کے لئے ایک با ضابطہ قانون موجود ہے جس کے تحت توہین مذہب کا مرتکب ہونے والے کو سزا دی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں تو توہین مذہب کا بہت سخت قانون بھی موجود ہے۔ عام پاکستانیوں کوصرف اس بات پر قائل کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مذہبی معاملات سمیت کسی بھی معاملے میں قانون اپنے ہاتھ میں لینے کے مجاز نہیں ہیں۔ یہ بات قانون طے کرے گا کہ کون مجرم ہے اور کون بے گناہ ہے۔ لوگ اگر یہ کام خود کرنا شروع کر دیں تو پھر قانون اور اس پر عملدرآمد کے لئے بنائے گئے اداروں کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

یہ اتنا خطرناک بیانیہ ہے کہ اس کو کوئی بھی شخص کسی بھی مقصد کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔ کسی غیر مسلم پاکستانی کو ٹھکانے لگانا ہو یا کسی ذاتی رنجش کا بدلہ لینا ہو، زمین اور جائیداد ہتھیانا ہو یا کسی معصوم لڑکی کو پھنسانا ہو، کسی آبادی کو خالی کرانا ہو یا کسی کے سیکولر نظریات سے چھٹکارا پانا ہو یہ بیانیہ کام آجاتا ہے۔ نوجوانوں میں عدم برداشت کی بہت ساری اقسام پائی جاتی ہیں مگر توہین مذہب کے جرم سے پڑھے لکھے نوجوانوں کی جس انداز میں ذہن سازی ہوئی ہے وہ انتہائی خطرناک صورت اختیار کر رہی ہے۔

اس بیانیہ کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی پولیس، قانون نافذ کرنے والے ادارے، عدالت، جیل وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ بیانیہ کسی ملزم کوان تمام مراحل سے گزارنے کا قائل نہیں ہے۔ اس بیانیہ نے فورا سے پہلے اپنا کام دیکھنا ہوتا ہے۔ اسی بیانے کے حامی اتنی تعداد میں ہیں کہ وہ نظام کو بھی چیلنج کر سکتے ہیں۔ اس لئے آج تک ضیاء کے دور میں بنائے گئے توہین مذہب کے قانون میں ترمیم کی کسی کو جرات نہیں ہوئی ہے۔ جس کسی نے اس پر بات کی اس کو عبرت کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک طرف یہ اس قانون کو چھیڑنے نہیں دیتے اور دوسری طرف وہ وقت آنے پر قانون کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں۔ ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر وہ اس قانون کے برقرار رکھنے پر بضد ہیں تو کسی پر توہین مذہب کا الزام لگنے کے بعد ان کو سزا دلانے کے لئے اس قانون کا سہارا کیوں نہیں لیتے۔ اگر خود ہی حساب کتاب برابر کرنا ہے تو پھر قانون کو برقرار رکھنے پر بضد کیوں ہیں۔ یعنی قانو ن بھی برقرار رہے اور ہم خود فیصلہ بھی صادر کریں گے۔ یہ اتنی بڑی بدمعاشی ہے جس کا کسی مہذب معاشرے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

ان ظالموں سے اب ایسے سوالات کون پوچھے گا۔ کیونکہ عام پاکستانی کے لئے اس بیانیہ میں ایسے سوالات پوچھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام پاکستانی سکتے کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ وزیر اعظم بھی بیانیہ کی تبدیلی کے لئے ان لوگوں سے فریاد کرتے ہیں جو ان جیسے واقعات کی زبانی مذمت کرنے کے بھی قائل نہیں۔ وہ درپردہ ایسے واقعات کی تائید و حمایت کرتے ہیں۔ وگرنہ ہر مسجد و منبر سے اس کے خلاف بات ہوجانی چائیے تھی۔ حد تو یہ ہے کہ عام لوگ اس مرض کو سمجھنے سے قاصر ہیں ان کا خیال ہے کہ یہ دین کی کوئی خدمت ہورہی ہے اس لئے ملک کی اکثریت آبادی اس کو سنجیدگی سے نہیں لیتی۔ ان کا خیال ہے کہ توہین مذہب کی سزا اور کیا ہوسکتی ہے۔ محض مٹھی بھر پاکستانی اس بیانیہ کی مذمت کر رہے ہیں۔ یہ بیانیہ اتنی آسانی سے تبدیل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لئے ریاست کو اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہوگا۔ اور جب تک ریاست کا مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں ہوجا تا تب تک نہ جانے کتنے اور پاکستانی اس بیانیہ کی بھینٹ چڑھ جائیں گے اور ہم ہر واقع کے بعد کچھ دیر اس کا رونا روئیں گے اور اس کے بعد بھول جائیں گے جب تک کہ اگلا واقع رونما نہیں ہو جاتاہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).