کیا مشال کی فیک آئی ڈی سے گستاخی کرنے والوں کو سزا ملے گی؟


پہلے تو بحث یہ تھی کہ قانون توہینِ مذہب کا استعمال لوگ اپنی ذاتی دشمنیاں اور رنجشیں مٹانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں لیکن اب توہینِ مذہب کے قانون کی توہین کی جا رہی ہے اور کرنے والے وہ ہیں جو خود اس قانون کے داعی ہیں ۔قانون توہینِ مذہب کے غلط استعمال پر انسانی حقوق والے ضرور آواز بلند کرتے تھے اور زور غلط استعمال پر تھا لیکن قانون کبھی خطرے کی سطح پر نہیں پہنچا ۔ اس قانون کے حمایتی طبقے نے جس طرح اس قانون کو استعمال کیا ہے اس قانون کو انہی سے خطرہ ہے۔ کیا اب اس قانون کی توہین کا ایک علیحدہ سے مخصوص قانون بنانے کا وقت آ گیا ہے؟

ایک بھٹہ مالک مسیحی جوڑے کو رقم کے تنازعہ پر زندہ آگ میں جلا دیتا ہے۔ جب وہ میاں بیوی آگ میں زندہ جل رہے تھے تو ان کے بچے دیکھ رہے تھے۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جس کی تاب لانا ۔۔اس منظر کو تخیل میں لانا اور پھر بھی زندہ رہنا ایک کارنامے سے کم نہیں ہے۔ جس دن وہ مسیحی جوڑا زندہ جل رہا تھا مر رہا تھا اس دن انسانیت کرہ ارض سے خوف کی بنا پر چند ہزار کلومیٹر اٹھ کر خلا میں جا گھسی تھی اور وہاں سے یہ سارا منظر تھر تھر کانپتی دیکھ رہی تھی ۔ شاید وہ واپس نہ آتی لیکن یقین ہے کسی بچے کی مسکراہٹ کو امید سمجھتی لوٹ آئی ۔

ابتدائی تحقیق کے بعد اداروں نے بتایا کہ مشال سے کوئی توہین آمیز جملہ ثابت نہیں ہوا۔ مشال کے نام سے البتہ بہت سا جعلی مواد اس کی شہادت کے بعد فیس بک پر ڈالا گیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر توہین آمیز جملے کس نے مشال کے نام پر اس کے دنیا میں جانے کے بعد لکھے۔ نہ صرف لکھے بلکہ ایک پوری مہم چلائی گئی۔ ان جملوں میں جو توہین آمیز مواد ہے وہ تصور میں لانا محال ہے ۔

عجیب قضیہ ہے۔ مشال کی شہادت کے بعد دو طبقے میدان میں تھے۔ ایک وہ جو مشال کےنا حق قتل پر اس کے حق میں بول رہے تھے اور ریاست سے انصاف کے طلبگار تھے۔پھر ملزم وجاہت کا اعترافی بیان آیا کہ ’یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں کہا کہ وہ مشال اور ان کے ساتھیوں کے خلاف تقریر کریں اور یہ بولیں کہ انہوں نے توہینِ مذہب کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر انہیں اس سازش کا پتہ ہوتا تو وہ اس دن یونیورسٹی ہی نہ آتے۔‘

ملزم وجاہت نے اپنے بیان میں کہا کہ۔۔۔انہوں نے خود لوگوں کو بتایا گیا کہ مشال، عبداللہ اور زبیر نے توہین مذہب کی ہے جس کے بعد فہیم عالم نے لوگوں کے سامنے فوری گواہی بھی دے دیٗٗ۔۔۔ ذرا کردار کی “عظمت ” دیکھتے جائیے۔

ایک دوسرا طبقہ تھا جو بضد تھا کہ مشال نے توہین کی ۔ اس کے ان کے پاس کوئی شواہد نہیں تھے۔ شواہد نہ ہونے کی وجہ سے اور اپنے مکروہ کھیل کی بازی کو ہارتا دیکھ کر مشال سے منسوب ایسے جعلی سکرین شاٹس کی بھرمار نظر آنے لگی کہ کوئی سخت سے سخت دل انسان کسی بھی مذہب کے نبی کے متعلق ایسی زبان استعمال نہیں کر سکتا ۔ ہاں اگر وہ کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہے تو وہ دوسری بات ہے۔

مشال خان کی معصومیت ثابت ہونے کے بعد بجائے اس کے شرمندگی کا راستہ اختیار کیا جاتا الٹا وحشت کے تحفظ کے لیے سامان کیا جانے لگا۔ دوسرا طبقہ جس کی ویڈیوز بھی اب سامنے آ رہی ہیں کہ جس میں حلف لیے جا رہے ہیں کہ خبر دار کسی نے کسی کا نام لیا ۔ سرکردہ مذہبی رہنما انتظامیہ پر دباؤ ڈالنے پر مصروف ہیں کہ ان کے پیرو کاروں کو رہا کیا جائے۔

عمران خان نے درست کہا ہے کہ ہم اب اہم موڑ پر آ گئے ہیں ۔ یہ واقعی ایک اہم موڑ ہے۔ ہماری ملکی تاریخ کا اہم ترین موڑ۔ قانون توہینِ مذہب پر بحث تو ایک جانب رہی اب تو زور اس بات پر ہونا چاہیے کہ ایک اور سخت قانون ایسا بنایا جائے جو قانون توہینِ مذہب کی توہین کی صورت میں سخت گیری سے نافذ ہو۔

اور ہمارے لیے اب یہ معاملہ کہیں اہم ہو چلا ہے کہ یہ سکرین شاٹس کس نے بنائے ۔ کون تھے جو مشال خان کے قتل کو درست ثابت کرنا چاہتے تھے؟ کون تھے جو اس قتل کو درست ثابت کرنے کے لیے توہین آمیز سکرین شاٹس بنا بنا کر ایک ایسے فرد سے منسوب کر رہے تھے جو دنیامیں موجود ہی نہیں تھا؟ کون تھے جو مشال خان کے والد کو چپ رہنے او ر خاموشی سے دفنا دینے پر مجبور کر رہے تھے؟ کون تھے جو مشال کو قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے جس کی وجہ سے مشال کو آبائی زمین میں دفنانا پڑا؟ مشال کی کٹی پھٹی اور ٹوٹی ہو ئی ہڈیوں کی لاش کو کس سے خطرہ ہے جو اس کی قبر پر پولیس کے اہلکار کھڑے کیے گئے ہیں؟

کون ہیں جو توہین کے خود ساختہ مقدمے کے نتیجے میں شہید ہونے والے مشال خان کے معاملے کو یہ رنگ دینے میں مصروف ہیں کہ اس معاملہ سے مذہب کا لینا دینا نہیں بلکہ اس کو تعلیم یافتہ لوگوں نے مارا ہے؟ کون تھے جنہوں نے جنازے میں جانے والوں کو دھمکیاں دیں؟

ان سب کی شناخت لازم ہے۔ ان کی شناخت کرنے جب بھی آپ نکلیں گے تو دو طرح کے طبقات سے واسطہ ہو گا۔ ایک تو وہی خوش عقیدہ (لائی لگ) اور جذبات کی شدت طاری ہونے پر سوچنے سمجھنے سے محروم طبقہ۔ اور دوسرا وہ جن کے ہاتھ میں ان پتلیوں کی ڈور ہے ۔ اس طبقے سے شدید مدافعت کا سامنا ہو گا۔ کوئی اپنے کاروبار کو خطرے میں نہیں دیکھ سکتا۔ یہ لوگ اپنے کاروبار کی بقا اور فروغ کے لیے قانون توہینِ مذہب کی توہین کرنے سے بھی باز نہیں آئیں گے۔ یہ تو پھر قانون ہے جس مقدس ہستی کے نام کی تقدیس کے تحفظ کے لیے یہ قانون بنایا گیا اس نام کے ساتھ کیا کیا گیا؟

سوال پھر وہیں ہے ۔۔وہ کون بد دیانت تھے جو جانتے تھے کہ مشال سچا ہے لیکن انہوں نے توہین آمیز فقرے بنا بنا کر مشال کے نام سے سکرین شاٹس بنائے اور انہیں باقاعدہ ایک مہم کی طرح سوشل میڈیا پر شئیر کیا؟

کیا مشال کے نام پر ان توہین آمیز فقروں کو تحریر کرنے والوں پر توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمہ درج نہیں ہونا چاہیے؟ کیا اس معاملے میں نہایت حساسیت کا مظاہرہ کرنے والے اور خود سے کوشش کر کے سوشل میڈیا پر اس قبیح گستاخانہ حرکت کا سدباب کرنے میں سرگرم جسٹس شوکت عزیز صدیقی یا چوہدری نثار ان گستاخوں کو تلاش کرنے کے احکامات دیں گے تاکہ ان کو توہین مذہب کے جرم میں قرار واقعی سزا دی جا سکے؟

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik