’میرے بچے کو گورا بنا دو‘، انڈیا میں گورے پن کا جنون


انڈیا میں صدیوں سے گوری رنگت اور گوری جلد کے لیے ایک قسم کی دیوانگی دیکھی جاتی رہی ہے۔ ملک کے کاسمیٹک بازار میں گوراپن لانے والی کریم کی سب سے زیادہ مانگ ہے۔
یہاں تک کہ بالی وڈ کے کئی اداکار اور اداکارائیں ان کاسمیٹکس کی تشہیر بھی کرتے رہے ہیں۔

انٹرٹینمنٹ کی دنیا سے آنے والی ماڈل اور اداکارہ ٹینا سنگھ نے بی بی سی کے ساتھ ایک فیس بک لائیو میں اس کے متعلق اپنے تجربے کا ذکر کیا۔

وہ کہتی ہیں: ’اشتہارات کی دنیا میں اگر رنگ گورا نہیں ہوا تو آپ کو آڈیشن روم کے باہر سے ہی واپس کیا جا سکتا ہے کیونکہ آپ سیاہ جلد کے ساتھ کسی بھی چیز کی تشہیر نہیں کر سکتی ہیں۔
رنگوں پر مبنی یہ تعصب سماج سے لے کر فلم تک ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔

ٹینا کہتی ہیں: اگر آپ کا رنگ سیاہ ہے تو آپ کو خدمت گار، نچلے اور متوسط طبقے کے کرداروں کی پیشکش کی جائے گی۔ آپ کو منفی رول دیے جائیں گے۔ آپ کو کبھی ہیروئین کا رول نہیں دیا جائے گا کیونکہ ہیروئین تو گوری ہوتی ہے، قطرینہ کیف جیسی۔

سوال یہ ہے کہ گذشتہ دس سالوں میں گورے پن کے متعلق لوگوں کی ذہنیت بدلی ہے یا نہیں۔

ڈاکٹر جے شری شرد پیشے سے ڈرمیٹیلوجسٹ ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ جو حالات کل تھے، وہی آج بھی ہیں۔ چاہے آپ گاؤں میں چلے جائیں یا شہر میں ہوں یا کسی بھی صوبے میں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر آپ گورے ہیں تو آپ خوبصورت ہیں۔

لوگوں کے دماغ میں یہ بات بچپن سے ہی ڈالی جاتی ہے کہ اگر آپ کا رنگ ملیح ہے تو گورے رنگ والوں سے آپ قدرے پیچھے ہیں۔

ٹینا کہتی ہیں: میرے پیدا ہونے پر نانا جی صرف اس وجہ رونے لگے تھے کہ میں کالی ہوں۔ سکول کالج میں میرے سیاہ ہونے کی وجہ سے دوست نہیں ملتے تھے۔ عمر کے ہر موڑ پر مجھے بتایا گیا کہ تمہارا رنگ صاف نہیں ہے۔

گورے پن کی چاہت نہ صرف عورتوں کو ہے بلکہ مرد بھی اس سے اچھوتے نہیں ہیں۔ لیکن اب تو گورے پن کی اس مارکیٹ کے گاہکوں میں بچے بھی شامل ہو رہے ہیں۔

ڈاکٹر جے شری کہتی ہیں: ’اس کی شروعات ماں باپ ہی کر دیتے ہیں۔ گھر والوں کو لگتا ہے کہ کالی ہے تو شادی نہیں ہوگی، لڑکا نہیں ملے گا، زیادہ جہیز دینا پڑے گا۔ میرے پاس ماں باپ اپنے چھوٹے بچوں کو لے کر آتے ہیں کہ انھیں گورا کر دو۔

اسی سے منسلک ایک اور سوال ہے کہ انڈیا سے باہر کی دنیا میں گورے پن کو کس طرح سے دیکھا جاتا ہے؟

ٹینا سنگھ کہتی ہیں: ’انڈیا کے مقابلے باقی ایشیائی ممالک میں گورے پن کا زیادہ کریز ہے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ گوری رنگت چاہیے۔ لیکن یورپ جانے پر مجھے احساس ہوا کہ میں بھی خوبصورت ہوں اور اس کا احساس مجھے وہاں کے لوگوں نے ہی کرایا۔ اب مجھے خود کو آئینے میں دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ میں اب کونے میں نہیں کھڑی رہتی۔ ‘

ڈاکٹر جے شری نے ٹینا کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ’جنوب مشرقی ایشیا میں گورے پن کی شدید چاہت ہے۔ لیکن وہاں اس کی وجہ شادی تو نہیں ہے۔ مشرق وسطی کے لوگ تو پہلے ہی کافی گورے ہوتے ہیں اس کے باوجود وہ وائٹننگ ٹریٹمنٹ کراتے ہیں۔

گورے پن کے کریز کے پس پشت کیا نوآبادیاتی ماضی ہے؟

جے شری کہتی ہیں: صرف یہی وجہ نہیں ہے۔ روایتی طور پر برہمنوں کو گورا کہا گیا ہے۔ سیاہ رنگ والے لوگوں کو غلام سمجھا گیا ہے۔ اس کی شروعات وہیں سے ہوئی ہے۔ اگر آپ سیاہ ہیں تو آپ گویا گناہ کی علامت ہیں۔ پرانوں (ہندو کی مقدست کتابیں) میں یہی تصویر تیار کی گئی ہے کہ جو کالا ہے وہ راکشس (عفریت) ہے اور راجہ اور رانیوں کو گورا بتایا گیا ہے۔

جے شری کہتی ہیں کہ یہ تصور صدیوں سے چلا آ رہا ہے اور اسے کہیں نہ کہیں تو مسترد کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp