نورین لغاری کی بازیابی: حقائق کیا ہیں؟


 تفصیلی بیانات اور مسلسل وضاحتوں کے باوجود چند روز قبل سکیورٹی اداروں کے ایک آپریشن میں بازیاب کرائی گئی حیدر آباد کی بائیس سالہ لڑکی نورین لغاری کا معاملہ مزید الجھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے پیر سترہ اپریل کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے بتایا کہ نورین لغاری نے فیس بک پر اپنے بحران زدہ ملک شام پہنچنے کا پیغام تو پوسٹ کیا تھا لیکن درحقیقت وہ کبھی شام گئی ہی نہیں تھی۔

اس موقع پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے نورین لغاری کا ایک ویڈیو پیغام بھی صحافیوں کو دکھایا، جس میں نورین کا کہنا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے لاہور گئی تھی۔ اُسے کسی نے اغوا نہیں کیا تھا۔ اسے ایسٹر پر خودکش حملے میں استعمال کیا جانا تھا۔ اس کے مطابق (نورین کا شوہر بتایا جانے والا ) علی طارق نامی نوجوان شروع سے ہی دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث تھا۔ اس کارروائی کے دوران دستی بم اور ایسی خودکش جیکٹیں بھی ملی تھیں، جو مبینہ طور پر لاہور میں ایسٹر کے مسیحی تہوار کے موقع پر ایک حملے کے لیے استعمال کی جانا تھیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستانی میڈیا میں ’ذرائع‘ کے حوالے سے بڑی تعداد میں یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ داعش میں شمولیت کے لیے شام جانے والی نورین چند روز قبل پاکستان آئی تھی۔ ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کے مطابق لاہور میں محکمہ انسداد دہشت گردی نے دعویٰ کیا کہ جمعے کے روز لاہور کے ایک علاقے میں کارروائی کے دوران ’حراست میں لی گئی خاتون حیدر آباد سے لاپتہ ہونے والی لڑکی نورین لغاری ہے‘۔ محکمہ انسداد دہشت گردی کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق نورین لغاری دولت اسلامیہ میں شامل ہو کر دو ماہ شام میں گزار چکی ہے۔ اس بیان کے مطابق، ’’نورین شام میں دو ماہ گزارنے کے بعد چھ روز قبل پاکستان واپس لوٹی تھی۔‘‘

بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق سوال یہ ہے کہ اگر نورین شام گئی ہی نہیں تھی، تو اس کی شام جانے کی خبریں میڈیا کو کس نے اور کیوں دیں اور میڈیا نے بھی ان خبروں کی چھان بین کیے بغیر اپنی طرف سے انہیں بڑی قطعیت کے ساتھ کیوں چھاپ دیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے بقول فیس بک پر نورین کے پیغام کے بعد اس کے والدین نے آرمی چیف سے مدد کی اپیل کی تھی اور آرمی چیف نے ملٹری انٹیلیجنس ایم آئی کو اس لڑکی کی بازیابی کے احکامات دیے تھے۔ میجر جنرل آصف غفور کے مطابق، ’’ہماری پہلی ترجیح یہ ہے کہ نورین لغاری اپنے گھر جا کر اپنی معمول کی زندگی گزارے۔‘‘ دوسری جانب اس واقعے کے فوراﹰ بعد نورین کے بھائی افضل لغاری نےمختلف ذرائع ابلاغ سے گفتگو کر تے ہوئے حقائق سامنے لانے کا مطالبہ کر تے ہوئے یہ کہا تھا کہ نورین لغاری کا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر ڈاکٹر نوشاد شیخ نے بھی میڈیا سے گفتگو کر تے ہوئے کہا کہ تنہائی پسند نورین لغاری اچھے تعلیمی ریکارڈ کی حامل تھی۔ ان کے بقول یونیورسٹی میں شدت پسندی کی طرف مائل کرنے والا ماحول نہیں ہے۔ ڈاکٹر نوشاد کے مطابق یونیورسٹی کے اندر طلبا کو شدت پسندی کی ترغیب دینے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ سوشل میڈیا پر نورین کو ذہنی طور پر ایسی کسی کارروائی کے لیے تیار کیا گیا ہو۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ نورین لغاری قریب ڈھائی ماہ قبل حیدرآباد سے لاپتہ ہوئی تھی اور گزشتہ جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات اسے لاہور میں انٹیلیجنس اداروں کی طرف سے کیے جانے والےایک آپریشن کے دوران بازیاب کرا لیا گیا تھا۔ اس آپریشن میں ایک مبینہ دہشت گرد ہلاک ہو گیا تھا۔ جائے وقوعہ سے بازیاب کرائی گئی نورین لغاری حیدر آباد کے علاقے حسین آباد سے تعلق رکھتی ہے۔ اسی جائے وقوعہ سے پولیس کو نورین کا کالج کارڈ اور اس کے والد پروفیسر عبدالجبار لغاری کا شناختی کارڈ بھی ملا تھا۔

مبینہ طور پر داعش میں شمولیت کے لیے شام کا سفر کرنے والی اس پاکستانی لڑکی کے بارے میں یہ خبریں ایک ایسے وقت پر پاکستانی میڈیا میں گردش کر رہی ہیں جب امریکی حکومت کے قومی سلامتی کے مشیر میک ماسٹر پاکستان کے دورے پر ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کر تے ہوئے ممتاز تجزیہ کار امتیاز عالم نے بتایا کہ نورین لغاری کی خبروں کو امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر کے پاکستان کے دورے سے جوڑنا مناسب نہیں۔ ان کے بقول جب سے آپریشن ردالفساد شروع ہوا ہے، دہشت گردوں کی گرفتاری کی خبریں سکیورٹی اداروں کی طرف سے آتی رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کے حوالے سے کئی ایسے گروپوں کے نام سامنے آتے رہے ہیں، جو اپنا تعلق داعش کے ساتھ جوڑتے رہے ہیں۔ امتیاز عالم کے بقول میڈیا کو اپنے خبروں کی صداقت جانچنے کے نظام کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

جنوری 2016 میں بھی لاہور کی بعض خواتین کی اپنے بچوں سمیت شام روانگی کی خبریں میڈیا میں آئی تھیں لیکن بعد ازاں اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں۔

( بشکریہ DW.COM)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).