کتاب سے محبت پر سزائے موت کا قانون بنایا جائے


مشال خان مظلوم ہے تو ظلم کمانے والے کون لوگ ہیں؟ جو لوگ کسی طور بدانتظامی میں ملوث تھے، جن پر مالی ضابطگیوں کا الزام ہے ، جن کے خلاف مشال خان ایک مؤثر آواز تھا یا وہ جو ہجوم کی شکل میں حملہ آور تھے جنہیں ثبوت کی ضرورت نہیں تھی؟ یا وہ پولیس جس کا کردار اس معاملے کو مشکوک بناتا ہے۔ کہیں نہ کہیں قتل سے جشن تک پولیس والے کسی بیان کے مطابق منظر میں ہیں تو کہیں منظر سے غائب ہیں۔ کیا وہ خاموش تماشائی تھے؟ یا جشن منائے جانے تک انہوں نے پیچھے رہنا مناسب سمجھا؟ یا پھر یہ سب انہیں بچانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں؟ کیا تفتیش کا دائرہ کار پولیس والوں تک بھی بڑھایا جائے گا؟

مشال کے استاد کہتے ہیں اُسے کبھی کتاب کے بغیر نہیں دیکھا، سلمان حیدر کو اٹھایا گیا تو اس وقت اس کے پاس تین کتابیں تھیں، واحد بلوچ کا واحد جرم بھی کتاب ہی ہے۔ مشال کے استاد نے اُس کو کبھی کتاب کے بغیر نہیں دیکھا ، اور اب ہم مشال کو کبھی دیکھ نہیں سکیں گے۔ ہمیں روشنی سے محروم کرنے والے وہ ہیں جن پر ہمیں کہیں مان تھا کہ وہ درس گاہوں میں بیٹھے ہیں اور اندھیرے میں ایک امید کی کرن ہیں۔ ہمارا تو درس گاہ کا مان ٹوٹا ہے مگر عبدالرحمن خان کو شکوہ اپنے لوگوں سے ہے ، جو ماحول مشال کے علاقے میں اس کے قتل ہونے کے بعد دو روز تک رہا اس پر انہوں نے کہا کہ مشال دفن ہو گیا، اس کے ساتھ ہماری روایات بھی دفن ہو گئیں، ہماری سیاست بھی دفن ہو گئی اور شاید ہماری ریاست بھی۔

زاہد خان کہتے ہیں یونیورسٹی کا نام تبدیل کر کے مشال سے منسوب کیا تو تقسیم بڑھے گی، کیا ہم ان سے یہ سوال کر سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے لوگوں کے خلاف کیا کارروائی کی؟ تحریک انصاف کے تحصیل کونسلر کی ویڈیو اور اس میں حلف برداری آپ دیکھ چکے ہیں۔ کیا تحریکِ انصاف اور اےاین پی مشال کے نام کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور بیان بازی کی خاطر ہی استعمال کریں گے یا ان میں سے کوئی واقعی اپنے لوگوں کا احتساب کر سکتا ہے؟ نعرے بازی، مخالف پارٹی کا نام لینا بہت آسان ہے، خود کو پرکھنا اور اپنے گریبان میں جھانکنا کی ہمت کون کرے گا؟ سیاست سر آنکھوں پر مگر یہ معاملہ سیاسی بیان بازی سے کہیں زیادہ سنجیدگی اور عمل کا متقاضی ہے۔ ہم مشال کو کھو چکے ہیں اور اُس کے بعد ہمارے پاس سوال ہی بچے ہیں۔

کیا یونیورسٹی کی جن بےقاعدگیوں کی نشاندہی مشال نے کی اُن پر کام ہو گا؟

کیا یہ درس گاہ جو مقتل بن چکی ہے دوبارہ کبھی درس گاہ کا درجہ حاصل کر پائے گی؟

کیا ہمیں سوال کرنے کی اجازت ہے کہ قاتلوں کو بچانے کی کوشش کس کس جماعت کے لوگوں کی طرف سے کی گئی؟

کیا اس معاملے کو محض اے این پی اور تحریک انصاف کی سیاست میں لپیٹ دیا جائے گا؟

کیا سوشل میڈیا پر ہوا کے رخ کا اندازہ کر کے بیان دینے والا رہنما ہوتا ہے؟

کیا یونیورسٹی میں جن بےضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے اُن مسائل کو حل کرنے کی کوشش ہو گی؟

سبھی نے جنید جمشید کے معاملے پر مولانا طارق جمیل کو روتے دیکھا اور اداکارہ کی طلاق کے معاملے پر انہیں میڈیا پر دیکھا۔ ایسی کیا وجہ ہے کہ مولانا ابھی تک سامنے نہیں آئے؟

آگے بڑھتے ہیں ، گالیاں بکتے، لغو گفتگو فرماتے، مجمع سے خطاب کرتے خادم حسین رضوی جس عشق کی بات کر رہے ہیں کیا کوئی ہے جو انہی کی طرح سامنے آ کر انہیں بتا سکے کہ آپ غلط ہیں۔ آپ عشق کے نام پر جس قتل و غارت کو فروغ دینا چاہ رہے ہیں کل کسی نے کسی اور کو قتل کر دیا تو آپ ڈٹے رہیں گے یا حنیف قریشی کی طرح بیانِ حلفی جمع کرا کر خود کو بچا لیں گے؟

ایک عالمی اجتماع منعقد کرا کے اچھا پیغام دینے کے خواہشمند مولانا فضل الرحمان اگر یہ کہتے ہیں کہ توہینِ مذہب کا غلط الزام لگا کر اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی اور ساتھ ہی کہتے ہیں کوئی بھی ناموسِ رسالت قانون کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ اِس بیان کو کیا سمجھا جائے؟

کیا قاتل کو اپنے عمل پر فخر محسوس ہوتا ہے؟ اگر ہوتا ہے تو وہ رحم کی اپیل کیوں کرتا ہے؟ وہ حلف کیوں لیتا ہے کہ نام بتانا غداری تصور کیا جائے گا؟ وہ سامنے آ کر اعتراف کیوں نہیں کرتا؟ بھاگتا کیوں ہے؟ کیونکہ وہ جانتا ہے وہ غلط ہے۔ کسی قتل کو جواز فراہم کرنے والے کیا اپنے عمل پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں؟ کیا اسکرین شاٹ پھیلانے والے اور اُن اسکرین شاٹس پر ایمان لانے والے کہیں رک کر سوچتے ہیں کہ وہ کہاں غلط ہیں؟ عشق کے دعوے کرنے والے اتنا چھوٹا اور گرا ہوا کام کر کے خود کو کس منہ سے عاشق کہتے ہیں؟

سوال کچھ اور بھی ہیں۔ یہ عدالت ثبوت اور شواہد کیوں مانگتی ہے؟ جس پر گستاخی کا الزام لگے اُسے محض غیرتِ ایمانی کے تحت پھانسی گھاٹ کیوں نہیں پہنچاتی؟ اگر عدالت اِس الزام کی تحقیق کرنا چاہتی ہے تو جنید حفیظ کو وکیل کیوں نہیں ملتا؟ مل جائے تو راشد رحمان کو گولی کون مارتا ہے؟ کیا کسی قانون پر بات کرنے کی گنجائش موجود ہے؟ قانون پر بات کی جا سکتی ہے مگر سننا کون چاہتا ہے؟ یہ تو وہ الزام ہے جسے ثبوت درکار نہیں، ملزم کچھ نہیں ہوتا بس مجرم ہوتا ہے جسے یا تو کوئی خود مار دے یا پھر عدالت پہنچے تو زنداں میں پڑا رہے۔ کیا اس معاملے پر ایک بیان سے زیادہ بات ہو سکتی ہے یا ہو گی کہ اس قانون کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے؟ کیا اس میں کسی ترمیم کی گنجائش موجود ہے؟ کیا اس الزام کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور جھوٹ بولنے والوں کے خلاف کبھی کاروائی ممکن ہو سکے گی؟ سب چھوڑیں اہم بات یہ ہے کہ پانامہ کا فیصلہ آنے والا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).