ریاست بند گلی میں ہے۔۔۔


 آج کے اس دکھ اور رنج سے آلودہ ماحول میں بات کا آغاز ایک لطیفے سے کرتے ہیں.

ایک آدمی ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا.

اس کی بیماری کی علامات سن کر ڈاکٹر صاحب نے کہا ۔ گھر جاؤ ۔ ڈھیر ساری آئس کریم اور برف کھاؤ – خوب ٹھنڈے پانی سے نہاؤ اور رات کو صحن میں سو جاؤ .

مریض نے پوچھا ، ڈاکٹر صاحب کیا ان کاموں سے میں اچھا ہو جاؤں گا؟

ڈاکٹر صاحب نے فرمایا، یہ تو مجھے نہیں پتا۔ لیکن تمہیں اس طرح نمونیا ضرور ہوگا اور نمونیا کا علاج مجھے آتا ہے ۔

ہر واقعے کے اور ہر سانحے کے بعد ہم ان ڈاکٹر صاحب کی طرح سوچنے، مریض کی تشخیص کرنے اور علاج تجویز کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہر واقعے کو پہلے سے تیار کردہ سانچوں میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش، واقعات اور سانچوں دونوں کی ٹوٹ پھوٹ کے علاوہ کوئی اور نتیجہ فراہم نہیں کرتی، نہیں کر سکتی۔ اس کوشش کے نتیجے میں نہ صرف گزشتہ روز ہونے والے واقعے کی متعدد اور متنازع رپورٹس سامنے آجاتی ہیں بلکہ واقعے کی تشریح کے لئے استعمال ہونے والے ہر نظریاتی فریم ورک کی قلعی بھی کھل جاتی ہے.

میں تو ملک سے دور ہوں لیکن ملک میں رہنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات کو کن نظریاتی سانچوں میں رکھ کر دیکھنے کی روش رواج پا چکی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ نظریاتی سانچے کتنے مضبوط ہیں ان سانچوں میں کتنی زندگیاں اور کتنے دماغ بند ہیں۔ ان سانچوں کی حفاظت پر کتنی توانائی، وقت اور جانیں قربان ہو چکی ہیں۔ زندگی اور اعصاب ٹوٹ پھوٹ چکے….۔ نہیں ٹوٹے تو یہ نظریاتی سانچے … ہر معاشرے کو ان سانچوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسانوں پر مشتمل معاشرے ان کے بغیر تشکیل نہیں پاتے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر سانچے کی ایک طبعی عمر ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ ان کی موت بھی واقع ہوتی ہے۔ مردہ نظریات سے وابستگی انتہا پسندی کو جنم دیتی ہے۔ اس کی وجہ سیدھی اور صاف ہے۔ جب کوئی نظریاتی سانچہ معاشرے میں اتفاق کے بجاے افتراق کا سبب بننا شروع ہو جائے سمجھ لیجیے کہ اس کی عمر پوری ہو گئی۔ آپ دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ انتہا پسند معاشرے اختلافات کی ناقابل عبور خلیج میں معلق ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں شدید فرقہ واریت کے بغیر انتہا پسندی ممکن نہیں ہے۔ زندہ معاشرے بدلتے ہوے حالات میں ان نظریاتی سانچوں کی نئی صورتیں تشکیل دیتے ہیں۔ ان پر اتفاق راے پیدا کرتے ہیں اور انتہا پسندی سے محفوظ رہتے ہیں۔

 مردان کے سانحے نے جہاں اور بہت کچھ دکھایا وہیں ایک اور پردہ بھی اٹھایا۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں

وہ سازشیں جو کبھی اقتدار کے ایوانوں اور اس جیسے دیگر اداروں میں تیار کی جاتی تھیں اب یونیورسٹی کے دفاتر میں بھی پروان چڑھ سکتی ہیں

باہمی تنازعات کو مذہبی رنگ دینے پر مذہبی اجارہ داروں (یا اداروں) یا ان کو استعمال کرنے والوں کی اجارہ داری تھی۔ نوید ہو کہ یہ اجارہ داری مردان میں توڑ دی گئی ہے۔ اب گلی کوچوں میں رہنے والے بھی اس حربے کو استعمال کر سکتے ہیں۔

کسی کو راستے سے ہٹانے کے جو بہانے (توہین مذہب) پہلے کچھ خاص حلقے کچھ خاص مقاصد کے حصول کی خاطر کچھ خاص لوگوں کے خلاف خاص اشاروں پر استعمال کرتے تھے اب وہ بہانے عام لوگ عام مقاصد کے لئے عام لوگوں کے خلاف بھی استعمال کر سکتے ہیں.

باہمی اختلافات کو مٹانے کے لئے مخالفین کو مٹانے کا چلن گو اب روز کا معمول ہے مگر اب یہ اختلافات حل کرنے کے ایک واحد طریقے کے طور پر سامنے آ رہا ہے.

پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ تشدد کا استعمال ریاست اور اس کے اداروں نے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے کیا۔ جہاں مناسب سمجھا خود کیا اور جہاں ضرورت پڑی اپنے منظور نظر افراد سے کروایا۔ بعض ضرورتوں اور مجبوریوں کے سبب منظور نظر افراد کے گروہوں اور کار لائقہ میں اضافہ اور حلقہ اثر وسیع ہوتا چلا گیا۔ انتہائی اہم افراد کو یا تو ان منظور نظر افراد کے ذریعے چپ کروایا گیا یا غائب۔ ریاستی پشت پناہی نے قانون کی عمل داری کو عملی طور پر معطل کر دیا۔ ان اداروں اور گروہوں نے اپنی اسلحہ بردار طاقت کا مظاہرہ کیا۔ ان گروہوں کو ریاست کا بازوے شمشیر زن کہا گیا۔ ان کو غلبہ دین کا ہتھیار قرار دیا گیا۔ ان کو من مانی کرنے کی اجازت دی گئی۔ ان کی بہیمانہ غلطیوں سے صرف نظر کیا گیا۔ پھر آسمان نے وہ دن بھی دکھا کہ ریاست نے ایسے علاقوں کی نشاندہی کی کہ جہاں اس کی عملداری مفقود تھی۔ ایک سیاسی رہنما ان کے خلاف کچھ کرنے سے یہ کہہ کر ڈراتے رہے کہ کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں. بعد میں انہی صاحب نے ان گروہوں کے وجود کو قانونی حیثیت عطا کرنے کی تاریخی تجویز بھی دی

عربی زبان کا ایک عام محاورہ یاد کیجئے ۔ الناس علیٰ دین ملوکہم ۔ عوام بادشاہوں کے طور طریقے اختیار کرتے ہیں۔ ریاست کے ماوراے قانون کام عوام میں لاقانونیت کو رواج دینے کے سوا کسی اور نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس کو جاننے کے لئے نفسیات کے واجبی علم کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کیا ہوا کہ جنازہ پڑھنے سے انکاری عوام قاتلوں کی گرفتاری کے لئے مظاہرے کر رہے ہیں؟ جب تک عوام نے ریاست کا موڈ نہیں دیکھا وہ گھر سے نماز جنازہ پڑھنے کے لئے بھی نہیں نکلے۔ جتنا وقت ریاست نے اپنا ذہن بنانے میں لیا عین اتنا ہی وقت عوام نے لیا۔ اتنا ہی وقت مشال خان کو شہید قرار دینے والوں نے لیا۔ یہ بھی درست ہے کہ کچھ لوگ ابھی بھی وقت لے رہے ہیں۔ کچھ ہوں گی مصلحتیں، جن سے ہم ایسے عامی کب واقف ہو سکتے ہیں۔

کوئی نابینا ہی ہوگا جو یہ نہ دیکھ سکے کہ ریاست (سٹیٹ) نے جو روش اختیار کی تھی وہ اب عوام (سٹریٹ) نے اختیار کر لی ہے۔ وہ طریقے جو اقتدار کے بلند ترین اداروں نے ایجاد کیے تھے اب گلی محلوں میں برتے جا رہے ہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ریاست کچھ اور کرے اور عوام کچھ اور۔ یہ بھی ممکن نہیں ہے زبانی جمع خرچ (جسے آج کل بیانیه کہا جا رہا ہے ) سے عوام کے طور طریقے ٹھیک ہو جائیں۔ آپ کو دیکھنا پڑے گا کہ بلا لحاظ نظریہ و مسلک عام آدمی تشدد کو مسائل حل کرنے کا واحد طریقہ سمجھتا ہے۔ اب ریاست کو اپنے طریقے بدلنے ہوں گے۔ مجھے ایک عامی ہونے سے فائدہ اٹھانے دیجئے اور میری اس کوتاہ بینی کو برداشت فرمایے ۔ ریاست اپنے طور طریقے تبدیل کرتے مجھے تو دکھائی نہیں دیتی……


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).