اب استاد کہلاتے شرم آتی ہے


 مردان یونیورسٹی میں رونما ہونے والے بھیانک سانحے کو کئی دن گزر چکے ہیں لیکن کسی پل چین نہیں پڑتا۔ کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ زندگی میں پہلی بار یہ احساس ہو رہا ہے کہ یہ سب کار فضول ہے۔ زندگی کے متعلق میرا رویہ زیادہ تر رواقی سا رہا ہے۔ نہ کبھی خوشی سے بدحال ہوا نہ کبھی غم سے نڈھال۔ ہر حالت کو ایک پیکج ڈیل کا حصہ سمجھ کر قبول کر لیا۔ البتہ کچھ اصول اور آدرش ہمیشہ پیش نظر رہے اور اپنی حد تک ان کی پابندی کرتے ہوئے حیات کا سفرطے کیا ہے۔ جب ہم چھوٹے ہوتے تھے تو گاؤں میں کبھی کبھار کوئی مداری تماشا دکھانے آ جاتا تھا۔ ہمارے لیے یہ بہت بڑی تفریح ہوتی تھی۔ تماشے کے اختتام پر وہ زمین پر ایک کپڑا بچھا دیتا تاکہ لوگ اس پر کچھ سکے ڈال دیں۔ وہ پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتا کہ کسی کا یہ کام کرنے کو جی نہیں چاہتا مگر اس پاپی پیٹ کی خاطر یہ سب کرنا پڑتا ہے۔

میں پاپی پیٹ کی خاطر کام کرنے کو بالکل بھی برا نہیں سمجھتا کہ انسان کی یہ ایک بہت بنیادی ضرورت ہے، مگر اس میں کچھ اقدار کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے۔ ہر کام کو عزت و وقار کے ساتھ سرانجام دینا ہوتا ہے۔ اپنی عزت کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور دوسرے کی عزت کا بھی۔

سوموار کے روز میری کلاس تھی۔ میں خود پر قابو نہ رکھ سکا، آنکھوں سے پانی بہہ نکلا اور وہ رکتا نہ تھا۔ مجھے سٹوڈنٹس کا سامنا کرنے میں خجالت محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے ان کے سامنے اعتراف کیا کہ مجھے خود کو استاد کہتے ہوئے شرم آ رہی ہے۔ میں کس منہ سے کہوں کہ میں اس قبیلے کا فرد ہوں۔ کبھی نظیری نے فخریہ کہا تھا :کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلہ ما نیست۔ وہاں تو بہادروں کے ساتھ کھڑے ہونا اور جان دینا فخر کا باعث تھا۔ صف بزدلاں میں شامل ہونے پر کس طرح فخر کیا جا سکتا ہے۔ میرے استادوں نے تو یہ سکھایا تھا کہ طالب علم کے خیالات کچھ بھی ہوں، استاد کا فرض اس کی تربیت کرنا اور اس کو سوچنا سکھانا اور شعور پر مبنی فیصلے کرنے کی تربیت دینا ہے۔ جن کا کام علم کا نور بانٹنا تھا وہ ظلمتوں اور نفرتوں کے پرچارک کس طرح بن گئے۔ اگر ایک طالب علم نے انتظامی عہدوں پر فائز افراد کے متعلق کچھ سوالات اٹھائے تھے، اور وہ آپ کی نظر میں غلط اور بوگس تھے، تو آپ ایک انضباطی کمیٹی بنا کر اس کے خلاف کارروائی کر سکتے تھے۔ اگر اس کا جرم قاعدے قانون کی نظر سے بہت سنگین تھا تو آپ اسے یونیورسٹی سے خارج کر سکتے تھے۔ لیکن پیشہ تدریس کی اتنی تذلیل کہ آپ اپنی ہتک کا بدلہ لینے کی خاطر اس پر توہین مذہب کا الزام لگا کر اس کے خلاف بلوہ کرا دیتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اس کی لاش کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ اس پر آپ کے دل مطمئن اور شادمان ہو جاتے ہیں۔

زمانہ طالب علمی میں مجھے استاد محترم پروفیسر مرزا منور صاحب کی بے پناہ شفقت میسر رہی۔ اس وقت ان کی کہی ہوئی ایک بات بے طرح یاد آرہی ہے۔ ایک دن ان کی محفل میں کسی دوست نے سزا سے عبرت پکڑنے کی کوئی بات کر دی۔ استاد محترم نے فرمایا کہ عبرت پکڑنے کے لیے انسان ہونا لازمی ہے۔ جانوروں کا ایک گلہ کھڑا ہوتا ہے۔ قصائی ایک کو پکڑ کر اس کے گلے پر چھری چلا دیتا ہے۔ باقی چارہ کھانے، جگالی کرنے اور ایک دوسرے کو سینگ مارنے میں مصروف رہتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی کسی حیوان کو عبرت پکڑتے دیکھا ہے؟ بات تو درست دکھائی دیتی ہے چاہے کتنی ہی اذیت ناک کیوں نہ ہو۔ کتنا ہی بڑا واقعہ کیوں نہ جائے، ہم بالعموم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ لیکن سوال یہی ہے کہ ہم انسانیت کے درجے سے اتنا گر کیوں جاتے ہیں؟ انسانوں کا خون بہا کر لذت کشید کیوں کرتے ہیں۔

یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ گزشتہ پانچ دہائیوں میں ان جدید تعلیمی اداروں میں کتنی ہی لاشیں گرائی جا چکی ہیں۔کبھی کسی جواز پر اور کبھی کسی عنوان سے۔ کبھی اسلام پسندوں اور سرخوں کے مابین ہونے والی لڑائیوں میں جوان جسم خاک و خون میں نہلائے جاتے تھے، کبھی درسگاہوں اورہوسٹلوں پر قبضے کے لیے مختلف لسانی، سیاسی اور مذہبی طلبہ تنظیمیں برسر پیکار ہوتی رہی ہیں۔ لیکن ہر بار ہم تھوڑا سا ماتم کرکے دوبارہ کار دنیا میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ میں نے کبھی اساتذہ کو کسی طالب علم کے قتل ہونے پر احتجاج کرتے نہیں دیکھا۔ اگر کوئی استاد کسی طلبہ تنظیم کے تشدد کا نشانہ بنا تو اس پر ہم ضرور احتجاج کرتے تھے۔ اگرچہ گزشتہ چند برسوں میں حالات اتنا بدل گئے ہیں کہ اب اساتذہ بھی اپنے کسی رفیق کار کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر احتجاج کے لیے شاید مجتمع نہ ہو سکیں۔

 میرے گزشتہ مضمون پر بعض کرم فرماؤں نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ میں پرانے زمانے کی باتیں کر رہا ہوں۔ شاید یہ بات درست ہے کہ میں پرانے زمانے ہی کا فرد ہوں۔ میں اسے اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہوں کہ مجھے بہت اچھے استادوں سے فیض اٹھانے کا موقع ملا ہے لیکن ہم بدنصیب شاید اپنے شاگردوں کے لیے کوئی عمدہ نمونہ پیش نہیں کر سکے۔ ہم نہ ان کے دماغوں کو منور کر سکے اور نہ ان کے دلوں میں انسانیت کا درد پیدا کر سکے۔ ایک وقت تھا کہ معلمی کو پیغمبری پیشہ کہا جاتا تھا۔ لیکن اس بلندی کے بعد ہم اس درجہ پستی میں گر چکے ہیں کہ گریڈوں اور سہولیات کی خاطر اس مقدس پیشے کی اخلاقیات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ مجھے تدریس کے عمل سے وابستہ ہوئے اڑتیس برس گزر چکے ہیں۔ میں نے کبھی اس کام کو محض روزی کمانے کا ذریعہ نہیں سمجھا تھا لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ شاید میں غلط تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ سب ایک کار بے ثمر تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ابھی تدریسی عمل جاری تھا لیکن اب سوچ رہا ہوں کہ اسے خیرباد کہہ دوں کیوں کہ مشال کی موت کے ساتھ میرے اندر بھی کچھ مر گیا ہے۔ ابھی یہاں تک لکھا تھا کہ خبر ملی ہے پنجاب یونیورسٹی میں ایک خاتون استاد کو قتل کر دیا گیا ہے۔ خون کا دریا رواں ہے اور نجانے کب کون اس میں ڈوب جائے۔

 ناصر کاظمی کے دو شعر یاد آ رہے ہیں:

شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بلا رہا ہوں

جو قافلہ میرا ہم سفر تھا، مثال گرد سفر گیا وہ

وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا

سدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).