یہ ریپ کا کلچر ہے – مکمل کالم


یہ واقعہ 16 دسمبر 2012 کا ہے، وقت ہے رات ساڑھے نو بجے کا اور مقام ہے نئی دہلی۔ 23 سالہ جیوتی سنگھ اپنے ایک مرد دوست کے ہمراہ سنیما سے فلم دیکھ کر نکلی ہے۔ گھر واپس جانے کے لیے دونوں ایک بس میں سوار ہوتے ہیں جس میں ڈرائیور سمیت پہلے سے چھ افراد موجود ہیں۔ ایک کنڈکٹر نما لڑکا جس کی عمر اٹھارہ سال سے بھی کم ہے انہیں بتاتا ہے کہ یہ بس وہیں جا رہی ہے جہاں انہیں پہنچنا ہے۔ تھوڑی دیر بعد جیوتی سنگھ اور اس کے دوست کو احساس ہوتا ہے کہ بس اپنے مقررہ راستے پر چلنے کی بجائے کسی دوسری طرف نکل گئی ہے اور بس کے دروازے بھی بند ہو گئے ہیں۔

جیوتی کا دوست جب ڈرائیور سے اس بارے میں پوچھتا ہے تو جواب میں وہ سب نوجوان ان دونوں پر جملے کستے ہیں اور طعنے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم دونوں رات کے وقت اکیلے کیوں گھوم رہے تھے! بات بڑھ جاتی ہے، جیوتی کا دوست انہیں بس روکنے کے لیے کہتا ہے مگر وہ پانچوں اس پر پل پڑتے ہیں اور لوہے کی راڈ سے وار کر کے اسے بیہوش کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد یہ پانچ افراد جیوتی کو کھینچ کر بس کے اگلے حصے میں لے جاتے ہیں اور لوہے کی راڈ سے اس پر ایسا تشدد کرتے ہیں جس کی تفصیل بتائی نہیں جا سکتی اور پھر اس کا گینگ ریپ کرتے ہیں، بس ڈرائیور اس دوران اطمینان سے بس چلاتا رہتا ہے۔

گیارہ بجے کے قریب یہ درندے ان دونوں کو بس سے باہر پھینک کر فرار ہو جاتے ہیں۔ سڑک پر کوئی راہ گیر انہیں نیم مردہ زخمی حالت میں دیکھ کر پولیس کو اطلاع دیتا ہے جس کے بعد دونوں کو اسپتال منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ایک ہفتے کے اندر جیوتی کے پانچ آپریشن ہوتے ہیں، اس کی باقی ماندہ زخمی انتڑیاں نکالی جاتی ہیں، 27 دسمبر کو جیوتی کو ہوائی ایمبولنس کے ذریعے سنگاپور کے اسپتال پہنچایا جاتا ہے مگر وہ جانبر نہیں ہو پاتی اور دو دن بعد اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

اس واقعے سے پورا ہندوستان لرز اٹھتا ہے، دہلی سے لے کر چنائی تک اور کوچی سے لے کر ممبئی تک لوگ شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کرتے ہیں، تمام چھ کے چھ مجرمان کو گرفتار کر لیا جاتا ہے ، مقدمے کے دوران ایک مجرم خودکشی کر لیتا ہے جبکہ نابالغ لڑکے کو تین سال کی قید ہوتی ہے۔ باقی چار مجرموں کو 20 مارچ 2020 کو پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ جس قدر خوفناک تھا اس کے اثرات بھی اتنے ہی دور رس مرتب ہوئے، بھارت کی بہت سی ریاستوں نے خواتین کی حفاظت کے لیے خصوصی قوانین بنائے، انڈین پینل کوڈ اور قانون شہادت میں ترامیم کی گئیں، پولیس اصلاحات کی گئیں جن کے نتیجے بہت سی مثبت تبدیلیاں ہوئیں۔ بھارت سے ریپ ختم نہیں ہوا مگر اس واقعے نے ریپ سے متعلق کلچر کو تھوڑا بہت ہی سہی مگر تبدیل ضرور کیا۔

دنیا کا بڑے سے بڑا واقعہ بھی ہمیشہ شہ سرخیوں میں نہیں رہتا۔ ہر واقعے کی ایک ’شیلف لائف‘ ہوتی ہے جس کے بعد وہ ختم ہو جاتا ہے۔ موٹر وے گینگ ریپ کا واقعہ بھی چند ماہ یا چند ہفتوں بعد معدوم ہو جائے گا، یہ قدرتی امر ہے، اصل بات یہ ہے کہہ ہم اس واقعے سے سبق سیکھ کر کیا اقدامات کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سر عام پھانسی اس کا حل ہے، کسی کی تجویز ہے کہ ایسے مجرموں کو شرعی سزائیں دینی چاہئیں اور کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب فحاشی اور عریانی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو۔ مگر یہ جاننے کا کوئی پیمانہ بھی ہونا چاہیے اور یہ پیمانہ ایک ادارے نے بنا رکھا ہے، نام ہے ادارہ برائے خواتین، امن اور تحفظ (GIWPS) ۔

اس ادارے کے 2019 کے اشاریے کے مطابق خواتین کے لیے پہلے پانچ بہترین ممالک میں ناروے، سوئٹزر لینڈ، ڈنمارک، فن لینڈ اور آئس لینڈ شامل ہیں۔ آخری اطلاعات ملنے تک ان میں سے کسی ملک میں سر عام پھانسی کا رواج نہیں، کہیں شرعی سزائیں نہیں دی جاتیں اور عریانی اور فحاشی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاتا۔ اس کے برعکس بد ترین پانچ ممالک میں یمن، افغانستان، شام، پاکستان اور جنوبی سوڈان شامل ہیں، بد قسمتی سے یہ پانچوں مسلم اکثریتی ممالک ہیں۔ جس ادارے نے یہ اشاریہ مرتبہ کیا ہے وہ امریکہ میں ہے لہذا تعصب کا شبہ کیا جا سکتا ہے مگر انہی امریکی اداروں کی رپورٹوں کو ہم چوم چاٹ کر پیش کرتے ہیں جب وہ اپنے ہی ملک کے اعداد و شمار مرتب کر کے بتاتی ہیں کہ ان کی جامعات میں کتنی لڑکیوں کے ساتھ دراز دستی کے واقعات پیش آئے۔ اس اشاریے پر ہم جتنی بھی تنقید کر لیں مگر ہم میں سے ہر شخص یہ جانتا ہے کہ قندھار اور ہیلسنکی میں سے اگر کسی ایک شہر کا انتخاب کرنا پڑے تو اپنی بہن بیٹی کے لیے ہم کس شہر کو ترجیح دیں گے!

جو مغربی ممالک اس اشاریے میں اوپر ہیں وہاں خواتین اس لیے خود کو محفوظ سمجھتی ہیں کیونکہ ان ممالک نے طویل عرصے کی جد و جہد کے بعد اپنے ملک میں ایسا ماحول پیدا کیا ہے جس میں عورت کو بھیڑ، بکری یا دوسرے درجے کا شہری سمجھنے کی بجائے مرد کی طرح مکمل انسان سمجھا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مغرب میں اب عورت کی تذلیل نہیں ہوتی، وہاں کی آزادی اب نت نئے جرائم کو جنم دے رہی ہے جو تا حال ہم تک نہیں پہنچے۔

سوال یہ ہے کہ ہم کیا کریں؟ جواب یہ ہے کہ ہمیں ریپ کلچر کو ختم کرنا ہوگا۔ یہ ریپ کلچر کیا ہے؟ یہ وہ مائنڈ سیٹ ہے جو کہتا ہے کہ عورت رات کو گھر سے باہر کیوں نکلی، اس کے کپڑے ٹھیک نہیں تھے، وہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ فلم دیکھنے کیوں گئی، یہ عورتیں گھر کیوں نہیں بیٹھتیں، مردوں کی طرح بے شرمی کی باتیں کیوں کرتی ہیں، وغیرہ۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ مائنڈ سیٹ صرف پاکستان جیسے ممالک میں ہے، امریکہ جیسے ملکوں میں بھی بعض اوقات عورت کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، اس موضوع پر بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ ریپ کے کیس میں سزا کی شرح بہت کم ہوتی ہے، پولیس بھی تعاون نہیں کرتی، خود عورت کے لیے یہ بات کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی کہ وہ تھانیدار سے لے کر جج صاحب تک اور گھر والوں سے لے کر میڈیکل کرنے والے ڈاکٹر تک سب کو اپنے ظلم کی تفصیل پوری جزئیات کے ساتھ سنائے۔ رہی سہی کسر ہمارا معاشرہ پوری کر دیتا ہے جہاں ہر بات کا ایک ہی علاج بیان کیا جاتا ہے ’سر عام پھانسی‘ ۔

سوال یہ ہے کہ اگر سر عام پھانسی سے بھی ریپ نہ رکے تو کیا اگلا مرحلے میں مجرموں کو سر عام کھولتے ہوئے تیل میں ڈالا جائے گا یا ان کے اعضا کاٹے جائیں گے؟ کسی بھی انسان کے لیے سب سے زیادہ اذیت ناک سزا ساری عمر کے لیے قید تنہائی ہے، دنیا کا کوئی انسان یہ اذیت برداشت نہیں کر سکتا، نیوزی لینڈ میں مسجد میں قتل عام کرنے والے کو بھی یہی سزا دی گئی ہے، عراق میں چودہ برس کی بچی عبیرہ کو ریپ کرنے والے امریکی فوجی نے جیل میں خود کشی کر لی تھی، اس سے بھی یہ سزا برداشت نہیں ہوئی تھی۔

اور آخر میں ایک سوال مذہبی طبقات سے۔ ایک معاشرہ جہاں اکیس کروڑ فرزندان توحید بستے ہوں، وہاں اس بہیمانہ ظلم کے خلاف کسی مدرسے نے احتجاج کیا ہو، کسی دینی جماعت نے ریلی نکالی ہو، کسی خطیب نے جمعے کے خطبے میں اس مظلوم عورت کے لیے دعا کی ہویا دین کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگانے والے کسی نوجوان نے لاہور، کراچی، اسلام آباد میں ہونے والے مظاہروں میں شرکت کی ہو، تو فدوی کو ضرور آگاہ کیجئے گا۔ اگر جواب نفی میں آئے تو سمجھ لیں کہ یہ ریپ آخری ریپ نہیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada