کُچلے ہوئے ہاتھوں سے لکھا عہد نامہ


گزشتہ دنوں ہمیں بہت شدت سے یہ احساس ہوا کہ ’کتابوں‘ میں جو لکھا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ کتابیں صحیفے یا الہامی کتابیں ہی ہوں۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ان کتابوں کو لکھنے والا ہاتھ دستِ خداوندی ہو یا ان کا بیانیہ کسی عصمت مآب رسول نے از رہ الطاف اپنے ماننے والوں کو عطا کیا ہو۔ جن کتابوں اورجن بیانیوں کا آج تذکرہ ہے ان میں شاعری کی کتابیں بھی شامل ہیں اور ان میں فلسفیوں، صوفیوں، رشیوں ، اور داانشوروں کی کتابیں بھی شامل ہو سکتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’شاعری جزویست پیغمبری‘ یعنی شاعری میں پیغمبری بھی پنہاں ہو سکتی ہے۔

 سو گزشتہ دنوں ہمیں کچھ شعر یاد آئے جن کے اقتباس کچھ یوں ہیں ’۔۔۔ ’جائوں کس کو دکھلائوں۔۔۔انگلیا ں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا۔۔‘، ’دستِ تہہِ سنگ آمدہ پیمانِ وفا ہے‘ (یعنی پیمانِ وفا ایک کچلے ہوئے ہاتھ کی مانند ہے)، اور یہ کہ، ’وہ ہمیں تھے جن کے لباس پہ سرِ رو سیاہی لکھائی گئی۔۔ یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے‘۔ پھر جونؔ صاحب کا یہ شعر بھی یاد آیا جو ہماری روح پر کندہ ہے

آگے اسپِ خونی چادر اور خونی پرچم نکلے

جیسے نکلا اپنا جنازہ ، ایسے جنازے کم نکلے

یہ سب کچھ ہمیں پاکستان میں ایک ہونہار اور صاحبِ جستجو طالبِ علم ، مشعال خان کے بہیمانہ اور وحشانیہ قتل کی خبریں جان کر یاد آیا۔ وہی مشعال خان جس کی لاش کا مُثلہ کرنے کی ویڈیو ساری دنیا میں پھیل چکی تھی۔ ہم نے کتابوں ہی میں تو پڑھا تھا کہ کربلا کے میدان میں امام حسین کو شہید کرنے کے بعد ان کی لاش کے بھی ٹکڑے کئے گئے تھے اور ان کا سر نیزے پر بلند کرکے دربارِ یزیدیت میں پہنچایا گیا تھا۔ اور یہ بھی کتابوں ہی میں لکھا ہے کہ دورِ جاہلیت کے اہم مغربی ملکوں میں مذہب کے خلاف گستاخانہ باتیں کرنے کے صرف الزام ہی میں، ملزموں کو عبرت ناک طریقے سے موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد ان کی لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے ، شہر کی مختلف سمتوں میں میناروں اور دروازوں پر لٹکائے جاتے تھے، اور قاتل ایک دوسرے کو مبارک بعد بھی دیتے ہے۔ ایسی ہی مبارکباد کی ویڈیو پاکستان میں مشعال خان کے قاتلوں کی بھی منظرِ عام پر آئی ہے۔

کہتے ہیں کہ جب مشعال خان کی بدن دریدہ لاش ان کے گھر میں لائی گئی تو ان کی ماں نے اپنے بیٹے کو رخصت کرنے سے پہلے اس کے ہاتھ چومنے چاہے تو دیکھا کہ اس کی انگلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ کس کا کلیجہ ہے جو اس منظر کو سوچ کے پارہ پارہ نہ ہو جائے۔ ٹوٹی ہوئی انگلیوں کی کہانی بھی تو کتابوں میں لکھی ہے۔ کچلے ہوئے ہاتھوں، بدن دریدہ انسانوں، نیزوں پر سجے سروں، اور ستونِ دار پہ آویزاں سروں کے چراغ بھی تو ہماری کتابوں اور ہماری شاعری کے بیانات ہیں۔ جو لکھا گیا ہے جو کہا گیا ہے وہ ہمیں روز ہی تو نظر آتا ہے۔

کیا ہم نہیں دیکھتے کہ روز ہی کسی بھی معصوم کے لباس پر ’توہینِ مذہب‘ کے الزامات جلی حرفوں سے لکھے جاتے ہیں۔ اور پھر کسی مدعی اور شہادت کے نہ ہوتے ہوئے بھی خونِ خاک نشیناں نذرِ خاک ہوجاتا ہے۔ اور اگر وہ مشعال خان جیسا ملزم ہوتا ہے تو یہی داغ سجا کر یاروں کی محفل میں جان کا نذرانہ پیش کر دیتا ہے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ تمام تر ظلم و جبر کے باوجود مشعال خان کا جنازہ شان سے اٹھایا گیا۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ جھوٹ اور دروغ کے تحت کچلے ہوئے معصوم عوام اپنے شہید کے در پر پُرسہ کرنے اور ظالموں کے خلاف احتجاج کرنے پہنچے اس عزم کے ساتھ کہ وہ آئیندہ ایسا ظلم نہیں ہونے دیں گے۔ کاش ایسا ہی ہو۔ بلکہ ایسا ہو کہ کسی بھی معصوم کے خلاف بلا لحاظِ مذہب و فرقہ ایسا ظلم نہ ہو پائے، اور ہر ایک کو دستِ قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے۔

جو لکھا گیا ہے وہ تو ہوتا ہے۔ ظالموں کے شہر میں درندوں کے قبضہ کے بار ے ہی میں تو مولانا روم نے کہا تھا کہ، ’دِی شیخ با چراغ ہمی گشت گِردِ شہر۔۔کز دیو دَد ملولم و انسانم آرزوست‘ کہ ،کل ایک بزرگ ہاتھ میں چراغ لے کر شہر میں گھوم رہا تھا اور کہتا تھا کہ میں شیطانوں اور حیوانوں سے تنگ ہو اور کسی انسان کی تلاش میں ہوں۔

پاکستان میں شیطانوں اورحیوانوں نے توہینِ مذہب کے جھوٹے الزامات کا جو طومار باندھ رکھا ہے، اس کا علاج بھی کتابوں ہی میں ہے۔ جہاں یہ لکھا ہے کہ مغرب کے دورِ جاہلیت میں مذہب کی بنیاد پر اسی طرح کی درندگی اور بربریت سے تنگ آکر اہلِ مغرب نے ایک ایسے نظامِ حکومت کو اپنایا جس میں ریاستوں کی قانون سازی میں مذہب کو شامل نہیں کیا جاتا، جہاں ہر شخص اپنے مذہب اور فرقہ کی روایتوں پر عمل کرنے کے لیئے آزاد ہے، جس میں کسی یر مذہب اور فرقہ پر عقائد کی بنیاد پر بنائے گئے قانون نہیں تھوپے جاسکتے۔ ممکن ہے کہ اس اصول پر ایک آئیڈئل کے طور پر عمل نہ ہوتا ہو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب ان ممالک میں مذہب کے نام پر خونریزی اور کُشت و خون کم سے کم تر ہوگیا ہے اور یہ ممالک دنیا میں سماجی اور معاشی ترقی یافتہ ممالک کی صفِ اوّل میں شامل ہیں۔

مشعال خان کے قتل کے بعد اور اس سے قبل نوبل انعام یافتہ دخترِ پاکستان ملالہؔ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کے بعد پاکستان میں عوامی سماجی عمل پرستی میں کچھ کچھ تیزی آئی ہے، باوجودیکہ عمل پرستوں کی راہ میں اب بھی سرکاری اور غیر سرکاری قدغنیں لگائی جارہی ہیں۔ کاش آئندہ کی کتابوں میں لکھا جائے کہ پاکستان میں کچلے ہوئے ہاتھوں سے ایسا سماجی اور عمرانی معاہدہ لکھا گیا تھا کہ جو آئندگان کو مشعل اور چراغ دکھاتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).