پاناما کیس کا جن باہر نکلنے کو ہے!


 سپریم کورٹ کے اعلان کے مطابق پاناما کیس کا فیصلہ 20 اپریل کو 2 بجے دن سنایا جائے گا۔ سیاسی حلقوں کی جانب سے اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ تاریخی فیصلہ ہوگا جس میں انصاف کی فتح ہو گی اور بدعنوانی کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ البتہ اس وقت جو سیاستدان اس فیصلہ کے حوالے سے جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ بہرصورت فیصلہ کو دل و جان سے قبول کریں گے، وہ فیصلہ آنے کے بعد اپنی سیاسی ضرورت کے مطابق اس کی تشریح و تفہیم کرتے ہوئے اس موقف کو تبدیل کرتے دیر نہیں لگائیں گے۔ اگرچہ پاناما کیس بنیادی طور پر اصول قانون کی بنیاد پر چلنے والا مقدمہ تھا جس میں وزیراعظم کے بچوں کی ممکنہ بدعنوانی کی تحقیقات کرنے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ یہ مقدمہ حکومت کے ساتھ تحقیقاتی کمیشن کے ٹی او آرز پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے عدالت تک پہنچا تھا۔ سپریم کورٹ نے نومبر میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اسلام آباد شٹ ڈاؤن تحریک کی دھمکیوں کے ہنگام میں اس مقدمہ کی سماعت کرنے ، تحقیقاتی کمیشن کے قواعد و ضوابط خود مرتب کرنے اور اس معاملہ کو انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم مقدمہ کی سماعت کے دوران متعدد ایسے نئے پہلو، دعوے اور جوابی دعوے سامنے آئے کہ اب معاملہ بدعنوانی کی تحقیقات سے زیادہ اس بات پر ٹکا ہوا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں تقریر اور قوم سے خطاب کے دوران دروغ گوئی سے کام لیا تھا۔ اس لئے انہیں نااہل قرار دیا جائے۔

پاکستان تحریک انصاف ، شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ اور جماعت اسلامی اس مقدمہ میں مدعی ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے وزیراعظم کے مالی معاملات پر شدید نکتہ چینی کے باوجود اس مقدمہ میں فریق بننے سے گریز کیا تھا۔ اس لئے پیپلز پارٹی اس مقدمہ میں براہ راست ملوث نہیں ہے۔ البتہ اگر سپریم کورٹ نواز شریف کی قومی اسمبلی کی رکنیت منسوخ کر دیتی ہے اور انہیں آئین کی شق 62 اور 63 کا مرتکب پاتی ہے اور آئین کی شق 66 کے تحت وزیراعظم کے لئے استثنیٰ کی درخواست کو قابل غور نہیں سمجھتی تو ملک میں حکمرانی کا خواب دیکھنے والی باقی سیاسی پارٹیوں کی طرح پیپلز پارٹی بھی اس کا خیر مقدم کرنے والوں میں پیش پیش ہوگی۔ اس لئے آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ اس فیصلہ میں سپریم کورٹ آئین کی شقات 62 اور 63 کی تشریح کرکے یہ واضح کر سکتی ہے کہ کن صورتوں میں یہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ کوئی شخص امین و صادق نہیں رہا، اس لئے وہ اسمبلی کا رکن بننے یا رہنے کا اہل نہیں ہے۔ اسی طرح اس فیصلہ میں شق 66 کی وضاحت کرتے ہوئے یہ طے کیا جا سکے گا کہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز کوئی شخص اپنے کن افعال پر استثنیٰ کا حقدار ہے اور کون سے کام اسے اس استثنیٰ سے محروم کر سکتے ہیں۔ اگرچہ اپوزیشن کی جماعتیں یہ اعلان کرتی ہیں کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے ملک میں بدعنوانی اور کرپشن کا کلچر ختم ہو جائے گا اور سماعت کے دوران ججوں کی طرف سے بھی ایسے ریمارکس سامنے آئے تھے جن میں کرپشن کے خلاف کام کرنے کےلئے مقرر کئے گئے اداروں کی کارکردگی پر شدید نکتہ چینی کی گئی تھی۔ لیکن اس بات کی توقع کرنا کہ ایک فیصلہ ملک میں بدعنوانی کا خاتمہ کرنے کا سبب بنے گا ۔۔۔۔۔۔ ضرورت سے زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہونے کے مترادف ہے۔

سپریم کورٹ کےلئے وزیراعظم نواز شریف کو ذاتی طور پر بدعنوان قرار دینا آسان نہیں ہوگا۔ ان کا نام ان کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کی ملکیت کی وجہ سے سامنے آیا ہے۔ اپریل 2016 میں انٹرنیشنل کنسورشیم آف جرنلسٹس ICIJ نے پاناما کی ایک لا فرم موزاک فونزیکا کی دستاویزات جاری کی تھیں جن میں دنیا بھر کے سینکڑوں لوگوں کے نام سامنے آئے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا کے مالدار لوگ یا سیاستدان اپنی ناجائز دولت کو چھپانے کےلئے اس لا فرم کے ذریعے آف شور کمپنیاں رجسٹرڈ کرواتے تھے۔ اس لئے جن لوگوں کے نام ان دستاویزات میں سامنے آئے، انہیں اپنی مالی پوزیشن واضح کرنا پڑی تھی۔ پاکستان کے دو سو سے زائد شہریوں کے نام بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے پاناما کی اس لا فرم کے ذریعے آف شور کمپنیاں رجسٹر کروائی تھیں۔ گویا یہ سب لوگ کسی نہ کسی طریقے سے بدعنوانی کے ذریعے دولت کمانے میں ملوث تھے۔ البتہ ان میں سب سے زیادہ شہرت وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن و حسین کی کمپنیوں کو حاصل ہوئی۔ مریم نواز کا نام ٹرسٹی کے طور پر سامنے آیا۔ اس لئے یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ بھی ان کمپنیوں کے مالکان میں شامل ہیں۔ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہ دولت ناجائز طریقے سے کما کر منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر لے جائی گئی تھی۔ وزیراعظم اور ان کے تینوں بچے ان الزامات سے انکار کرتے ہیں۔

نواز شریف براہ راست ان کمپنیوں کی ملکیت یا لندن فلیٹس کے لین دین میں ملوث نہیں ہیں۔ لیکن گزشتہ برس ان کے بچوں کے نام پاناما پیپرز میں آنے کے بعد تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے وزیراعظم پر براہ راست الزام تراشی شروع کر دی۔ اس طرح ملک میں شدید بے چینی پیدا ہوگئی۔ وزیراعظم نے اس صورتحال میں اپنی پوزیشن واضح کرنے کےلئے قوم سے خطاب کیا اور قومی اسمبلی میں بھی اپنی مالی دیانتداری کا دعویٰ کیا۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ ان کے خاندان کے پاس بیرون ملک جو بھی وسائل موجود ہیں، وہ موروثی دولت ہے اور اس حوالے سے ساری دستاویزات موجود ہیں جو ضرورت پڑنے پر قوم کے سامنے پیش کر دی جائیں گی۔ اس طرح اس معاملہ میں ملوث نہ ہونے کے باوجود سیاسی مجبوریوں کے تحت وزیراعظم کو اس کا حصہ بننا پڑا۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران موروثی دولت کی بیرون ملک منتقلی یا ایک ملک سے دوسرے ملک منتقلی اور اس میں اضافہ کی دستاویزات و شواہد پیش نہیں کئے جا سکے۔ اس کی بجائے ایک قطری شہزادے حمد بن جاسم الثانی کے دو خط پیش کئے گئے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وزیراعظم کے والد میاں محمد شریف مرحوم نے 12 ملین درہم ان کے خاندان کی کمپنیوں کے کاروبار میں لگائے تھے۔ اسی سرمائے اور اس پر حاصل ہونے والے منافع کے طور پر مے فیئر کے فلیٹس کی مالک کمپنیوں نیسکول اور نیلسن کو نواز شریف کے صاحبزادوں کے نام منتقل کر دیا گیا۔ البتہ اس حوالے سے یہ بات عدالت کے علاوہ بہت سے لوگوں کےلئے ناقابل فہم رہی ہے کہ 12 ملین درہم کی کثیر رقم کی بینکوں کے ذریعے منتقلی کا کوئی ثبوت فراہم نہیں ہوا اور یہ کہا گیا کہ یہ رقم نقد الثانی خاندان کو دی گئی تھی۔ اسی بنیاد پر اپوزیشن کے وکیلوں نے وزیراعظم کے خلاف جھوٹ بولنے اور آئین کی شق 62 اور 63 کے تحت امین و صادق نہ رہنے کا دعویٰ دائر کیا ہوا ہے۔

وزیراعظم نواز شریف کے پاس گزشتہ برس کے دوران یہ آپشن موجود رہا ہے کہ وہ اس بحران میں سے نکلنے کےلئے خود وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیں اور کوئی دوسرا شخص وزیراعظم بنا دیا جائے۔ انہوں نے البتہ یہ اقدام کرنا مناسب نہیں سمجھا اور سپریم کورٹ میں دو ماہ سے زائد عرصہ تک چلنے والے مقدمہ کے دوران ججوں اور وکیلوں کے تند و تیز اور تلخ سوالوں کا سامنا کرنے کو ترجیح دی تھی۔ عدالت کو اس مشکل کا سامنا رہا ہے کہ دعویٰ دائر کرنے والوں اور اپنا دفاع کرنے والوں کی طرف سے ایسے ٹھوس شواہد یا دستاویزات پیش نہیں کی گئیں جن کی بنیاد پر عدالت کسی واضح نتیجہ پر پہنچ سکتی۔ ایک موقع پر مقدمہ کی سماعت کرنے والے بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ عدالت کے سامنے پیش کی جانے والی 99 فیصد سے زائد دستاویزات کوڑے میں پھینکنے کے لائق ہیں۔ اس صورت میں سپریم کورٹ کےلئے کسی ایک فریق کے موقف کو درست اور دوسرے کے دعوے کو مسترد کرنا آسان نہیں ہے۔ اسی لئے 23 فروری کو اس مقدمہ کی سماعت ختم ہونے کے بعد بینچ کے سربراہ نے کہا تھا کہ اس معاملہ میں 26 ہزار دستاویزات پیش کی گئی ہیں۔ ججوں کو یہ ساری دستاویزات پڑھ کر کسی نتیجہ تک پہنچنا ہے۔ اس لئے کوئی مختصر فیصلہ جاری نہیں ہوگا بلکہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ دو ماہ کے جاں گسل انتظار کے بعد اب یہ فیصلہ جمعرات کو سامنے آئے گا۔

اس دوران فیصلہ محفوظ کرنے اور طویل انتظار کروانے کی وجہ سے متعدد حلقوں کی طرف سے سپریم کورٹ پر نکتہ چینی بھی کی گئی اور سوشل میڈیا پر فیصلہ محفوظ کرنے کے حوالے سے چٹکلے بھی چھوڑے جاتے رہے۔ تاہم جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں واضح کیا تھا کہ عدالت ایسا فیصلہ دے گی جو 20 برس تک یاد رکھا جائے اور اسے اس بات کی پرواہ نہیں ہوگی کہ ملک کے لوگ اس فیصلہ سے خوش ہوتے ہیں یا ناخوش۔ بینچ کے سربراہ کی اس رائے کے برعکس اسی بینچ کے ایک رکن جسٹس اعجاز افضل خان نے ایک دوسرے مقدمہ کی سماعت کے دوران اس ماہ کے شروع میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’یہ فیصلہ ایسی نظیر قائم کرے گا جس کا حوالہ صدیوں تک دیا جاتا رہے گا‘‘۔ یہ ایک بلند بانگ دعویٰ ہے۔ 20 اپریل کو فیصلہ سامنے آنے کے بعد اس رائے کا تجزیہ بھی ضرور ہوگا۔ فریقین اپنے اپنے موقف کی سچائی پر مکمل یقین کا اظہار کرتے ہیں۔ تحریک انصاف اور دیگر مدعی وزیراعظم کی نااہلی کی امید کر رہے ہیں جبکہ وزیراعظم کو توقع ہے کہ سپریم کورٹ ان کے خلاف الزامات کو مسترد کر دے گی۔ ایسے میں اگر ایسا فیصلہ سامنے آتا ہے جس میں دونوں میں کسی فریق کی بات پوری طرح نہ مانی گئی تو دونوں ہی فریق اپنے اپنے طور پر کامیابی کا اعلان کریں گے اور ملک میں مسلسل بے یقینی اور پریشانی کی کیفیت برقرار رہے گی۔

پاناما کیس کے حوالے سے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے اس ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ پاک فوج بھی باقی قوم کی طرح اس فیصلہ کا انتظار کر رہی ہے اور انصاف اور میرٹ پر کئے جانے والا ہر فیصلہ فوج کو قبول ہوگا۔ جنرل آصف غفور کا یہ ٹوئٹ بیان ایک اخباری رپورٹ کی تردید کے طور پر سامنے آیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ پاناما کیس کا جو بھی فیصلہ ہو، فوج اسے قبول کرے گی۔ تاہم فوج کے ترجمان نے اس کی تردید کرتے ہوئے یہ واضح کرنا ضروری سمجھا تھا کہ فوج صرف انصاف اور میرٹ پر مبنی فیصلہ قبول کرے گی۔ اس لئے سپریم کورٹ کو دو روز بعد ایک ایسے فیصلہ کا اعلان کرنا ہے جو فوج کے مقرر کردہ معیار پر بھی پورا اترے اور مقدمہ کے فریقوں کی ضرورتوں کو بھی پورا کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali