کیا مولوی واقعی ہمارے نمائندے ہیں؟


بات چاہے ٹی وی چینلوں پر مسلمانوں سے متعلق مباحثوں میں نمائندگی کی ہو، حکومت کی مسلمانوں سے متعلق کمیٹی کی رکنیت کی ہو، مسلمانوں سے متعلق کسی عدالتی فیصلے پر ردعمل دینا ہو یا پھر مسلمانوں کو بنام مشورہ کوئی حکم، ہر جگہ مولوی حضرات مسلمانوں کے نمائندے بنے کھڑے ملیں گے۔ انتخابات میں مسلمان کسے ووٹ دیں؟، حکومت کی کون سی پالیسی صحیح ہے اور کون سی پالیسی خطرناک؟، مغرب اور دشمن کی کن چالوں سے مسلمانوں کو ہوشیار رہنا چاہئے؟ کس بات پر مسلمانوں کو احتجاج کرنا چاہئے اور کس پر چپ رہنا چاہئے؟ ان سب باتوں کا فیصلہ ہمارے مولوی صاحبان ہی کرتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عام مسلمان تدبر اور معاملہ فہمی میں ایک دم کورا ہے اور قوم کا دماغ یہ مولوی حضرات بن بیٹھے ہیں۔ جمہوریت میں ہر کسی کو بات کہنے کا حق ہے سو یہ حق مولوی صاحبان بھی رکھتے ہیں لیکن چونکہ انہیں میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کا چہرہ بنا دیا گیا ہے اس لئے ان کی دعویداری کی پرکھ ضروری ہے کہ کیا واقعی وہ مسلمانوں کے نمائندے ہیں؟۔

ان دنوں بھارت میں تین طلاق کا قضیہ سرخیوں میں ہے۔ کوئی شام ایسی نہیں جاتی جب کسی نہ کسی چینل پر اس معاملے پر گرما گرم بحث نہ ہو رہی ہو۔ ان بحثوں میں مولوی حضرات بھی ہوتے ہیں اور سب کے سب تین طلاق کی حمایت میں دلیلیں دے رہے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار ایک آدھ ایسا عالم بھی نظر آ جاتا ہے جو ایک بار میں تین طلاق، واٹس ایپ اور ایس ایم سے طلاق یا پھر خط لکھ کر طلاق دینے کوغلط قرار دیتا ہے۔ اب ذرا اسی معاملے کو لے لیجئے۔ ان مولوی صاحبان اور میڈیا نے مل کر بڑی محنت سے ان مولویوں کو مسلمانوں کی آواز کا درجہ دے دیا ہے اس لئے ایسا لگتا ہے کہ سارے مسلمان ہی ایک بار میں تین طلاق کے حمایتی ہیں۔ حالانکہ حقیقت اس سے مختلف ہے، مسلمانوں کے دو بڑے مسالک اہل حدیث اور شیعہ واضح طور پر مانتے ہیں کہ ایک بار میں تین طلاق ہو ہی نہیں سکتی۔ اتنا ہی نہیں خود حنفی مکتب فکر کے کئی پیرو کار اس طرح طلاق کو سونو مونو کا کھیل بنائے جانے کو غلط مانتے ہیں لیکن چونکہ میڈیا میں نظر آنے والے مولوی برادران ایک بار میں تین طلاق کی حمایت میں سر دھڑ کی بازی لگائے رہتے ہیں اس لئے تاثر یہی جاتا ہے کہ سارے مسلمان اس روایت کے حامی ہیں۔ تین طلاق سے ہی متعلق ایک اور معاملہ لیجئے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ میں کہنے کو تو تمام مسالک کی نمائندگی ہے لیکن ایک بار میں تین طلاق کے معاملے پر بورڈ صرف ایک مکتب فکر کے موقف کی تائید میں لگا ہوا ہے۔ چونکہ بورڈ میں احناف کا غلبہ ہے اس لئے ایسا لگتا ہے کہ ایک بار میں تین طلاق کی حمایت تمام مسلمانوں کا موقف ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بورڈ عدالت عظمیٰ میں داخل اپنے حلف نامے میں کہتا کہ مسلمانوں کے درمیان ہی اس پر اتفاق نہیں اور کچھ مکتب فکر اسے مانتے ہیں کچھ نہیں لیکن بورڈ کے ذمہ دار علما نے حلف نامے میں تین طلاق کی ایسی یکسر حمایت کی گویا یہ تمام مسلمانوں کی بات ہو۔ بورڈ میں شامل کسی عالم کو یہ بھی اچھی سوجھی کہ کیوں نہ مسلمان عورتوں سے ایک دستاویز پر دستخط کرا لئے جائیں تاکہ کہا جا سکے کہ ایک بار میں تین طلاق کو تو خود عورتیں ہی باقی رکھنا چاہتی ہیں۔ میں نے وہ فارم دیکھا ہے جس پر مسلمان عورتوں کے دستخط لئے گئے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس پر کہیں نہیں لکھا کہ ہم ایک بار میں تین طلاق، واٹس ایپ، ایس ایم ایس اور خط سے طلاق کی حمایت کرتی ہیں لیکن بورڈ کا اصرار ہے کہ عورتوں کی منشا یہی ہے۔

ابھی کچھ ہی دن ہوئے جب اترپردیش اسمبلی انتخابات میں متعدد علما نے مسلمانوں سے بی ایس پی کو ووٹ دینے کو کہا۔ ان میں دیوبندی مسلک کے علما بھی تھے اور بریلوی و خانقاہی بھی۔ کچھ شیعہ مولوی بھی بی ایس پی کی حمایت میں ووٹ مانگ رہے تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی جمہوری نظام میں کوئی ایک شخص کس حق سے کسی طبقے کو یہ ہدایت دینے کی جسارت کر سکتا ہے کہ وہ کسے ووٹ دیں؟۔ علماکو ذرا یہ بھی بتانا چاہئے کہ کس انتخاب میں کس کی حمایت کرنی ہے اس کے لئے ان کے پیمانے کیا ہیں؟۔اور ہاں، کیا علما یہ مانتے ہیں کہ مسلمان اتنے بے بصیرت ہیں کہ وہ یہ بھی طے نہیں کر سکتے کہ کس امیدوار یا جماعت کو ووٹ دینا ان کے لئے فائدے مند ہوگا؟۔

ٹی وی پر آنے والے علما کے ساتھ ایک دشواری اور ہے، اور وہ یہ کہ ان میں سے اکثر کو سلیقہ نہیں کہ کسی پلیٹ فارم پر اپنی بات کیسے رکھی جائے۔ بہت سے مولویوں کو میں نے ٹی وی مباحثوں میں نماز جمعہ کے خطبے اور مدرسے میں درس دینے جیسی باتیں کرتے دیکھا ہے۔ کچھ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولنے کے چکر میں اپنی مذاق اڑوا بیٹھتے ہیں۔ کسی معاملے پر مدلل طریقے سے بات رکھنا، مباحثے میں جانے سے پہلے اس موضوع پر تیاری کرنا، ذرا بہت دنیا جہان، سیاست اور تاریخ و جغرافیہ کی بھی جانکاری رکھنا یہ سب مولوی صاحبا ن کو سیکھنا ہوگا ورنہ وہ خود اپنی تو بھد پٹوائیں گے ہی مسلمانوں کا نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرکے ان کی ہنسی بھی اڑوائیں گے۔

اب ذرا ایک اور سوال پر آ جائیے۔ یہ مولوی صاحبان جو خود کو مسلمانوں کا نمائندہ بلکہ مسلمانوں کا قائد بتاتے ہیں کیا یہ واقعی مسلمانوں کے قائد ہیں؟۔اس کا جواب بالکل سامنے ہے۔ اترپردیش اسمبلی انتخابات میں بریلوی، صوفی، شیعہ اور دیوبندی ہر مکتب فکر کے کئی کئی مولویوں نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ مایاوتی کوووٹ دیں۔ اگر یہ حضرات واقعی مسلمانوں کے قائد یا کم از کم نمائندے ہی ہوتے تو اترپردیش میں مسلمانوں کا تمام 91 فیصد مسلمان ووٹ بی ایس پی کو ہی ملنا چاہئے تھا لیکن ہوا کیا؟۔ مسلمانوں نے ایک طرفہ طور پر سماج وادی پارٹی کانگریس اتحاد کو ووٹ دیا اور بی ایس پی کے ساتھ نہیں گئے۔ یہ اکلوتی مثال نہیں ہے اس سے پہلے بھی جب جب مولویوں نے مسلمانوں سے جس کے لئے ووٹ مانگا مسلمانوں نے اکثر اسی کو ووٹ نہیں دیا۔ کیا اس کے بعد بھی یہ کہنے کی ضرورت رہ جاتی ہے کہ مسلمان ان علما کو اپنا دماغ نہیں مانتے۔ اب اگر اس کے بعد بھی کوئی نہ مانے تو کیا کیا جائے؟۔

دقت یہ نہیں کہ مولوی نمائندہ بننے لائق ہیں یا نہیں مصیبت یہ ہے کہ مولویوں کو لگتا ہے کہ مسلمانوں کے ہر معاملے میں وہی حکم کا درجہ رکھتے ہیں۔ اب ذرا مسلم پرسنل لا بورڈ کو ہی لیجئے۔ اس تنظیم کا تعلق مسلمانوں کے پرسنل لا سے ہے لیکن بورڈ میں جمگھٹ علما کا ہی ہے۔ کیا مسلمان ماہرین قانون کا یہ پہلا حق نہیں کہ انہیں اس تنظیم میں شامل کیا جائے۔ ممکن ہے کوئی صاحب بورڈ کے ان مولوی اراکین کا نام لیں جو ایل ایل بی کر چکے ہیں، تو معاف کیجئے میں نے ماہرین قانون کی بات کی ہے، وکیلوں کی نہیں۔

بھارت میں مسلمانوں کے اندر ایک سے ایک ماہر تعلیم، ماہر معاشیات، ماہر سماجیات، مورخ، سائنسداں، ماہرین قانون اور سیاسی امور کے سکالرز ہیں لیکن ان سب کے ہوتے ہوئے بھی مولوی صاحبان کا اصرار ہے کہ انہیں ہر معاملے میں مسلمانوں کا نمائندہ قرار دیا جائے۔ مسلمانوں کی تعلیم پر کمیٹی بنے تو انہیں رکھا جائے، یونیورسٹی کورٹ کے اراکین کا انتخاب ہو تو انہیں موقع دیا جائے، مسلمانوں کی سماجی صورتحال پر کمیٹی یا کمیشن بنے تو اس میں سب سے پہلے ان کا نام ہو، حکومت وقف بورڈ یا حج کمیٹی بنائے تو انہیں صدارت اور رکنیت دے، راجیہ سبھا انہیں بھیجا جائے، لوک سبھا کا ٹکٹ انہیں دیا جائے۔ میرے خیال میں یہ ایک نفسیاتی معاملہ ہے۔ علما کو چاہئے کہ اخلاص کا ثبوت دیں اور اپنے وجود سے باہر نکل کر بھی سوچنا سیکھیں۔ ملک بہت بڑا ہے اور اس میں دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی رہتی ہے ایسے میں ان مسلمانوں کے معاملات میں نمائندگی کرنا ایک سنجیدہ کام ہے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter