مذھبی عسکریت پسندی کے جہادی بیانیے کی تشکیل میں مدارس کا کردار (2)


خلافت کا قیام واجب ہے۔ یہ بدیہی طور پر تسلیم شدہ بات ہے، جس کا انکار اہل مدارس تو کیا کوئی عام مسلمان بھی کرتا نظر نہیں آئے گا۔ اس کے لیے شواہد پیش کرنا غیر ضروری ہوگا۔ آگے چلتے ہیں۔

اس خلافت کے قیام کے لیے جدو جہد فرض ہے۔ یہ جد و جہد اہل حل و عقد اگر نہیں کرتے تو اہل علم کے ذمے واجب ہے کہ وہ برپا کریں۔ اس بیانیے کی مثالیں بہت ہیں، لیکن میں پہلے سید احمد شہید کی عبارات نقل کرتا ہوں، ان کی عبارات نقل کرنا اس لیے بھی مناسب ہے کہ یہ معلوم ہے کہ ان کے دور میں کسی ‘ریاست’ نے انہیں اس کام پر نہیں لگایا تھا۔ بلکہ ‘نصوص’ سے استدلال سے بننے والا بیانیہ ہی ان کی جہادی تحریک کا محرک تھا۔ آج کے جہادی بیانیے کا استدلال بھی یہی ہے۔ یہ درست ہے کہ سکھوں کے مبینہ مظالم سید صاحب کی تحریک کا ایک فوری محرک بنے، لیکن سید صاحب کی تحریروں سے پوری طرح واضح ہے کہ ان کے نزدیک سکھ حکومت کا خاتمہ ان کی منزل کا محض ایک سنگ میل تھا، جہاد کے داعیات سید صاحب میں پہلے سے موجود تھے۔ سید صاحب کی تحریک آج کی جہادی تحریکات کو علمی اور اخلاقی جواز بھی مہیا کرتے ہیں اور ہمت و حوصلہ بھی۔

سید صاحب فرماتے ہیں:

“اگرچہ کفار اور سرکشوں سے ہر زمانے اور ہر مقام میں جنگ کرنا لازم ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ اس زمانے میں کہ اہلِ کفر و طغیان کی سرکشی حد سے گزر چکی ہے، مظلوموں کی آہ و فریاد کا غلغلہ بلند ہے، شعارِ اسلام کی توہین ان کے ہاتھوں صاف نظر آ رہی ہے، اس بنا پر اب اقامتِ رکن دین، یعنی اہلِ شرک سے جہاد، عامہ مسلمین کے ذمے کہیں مؤکد اور واجب ہو گیا ہے۔” (ابو الحسن علی ندوی ، سیرتِ سید احمد شہید، جلد دوم،طبع نہم، لکھنؤ، مجلسِ تحقیق و نشریاتِ اسلام، ص 388)

اس عبارت کے پہلے جملے سے واضح ہے کہ کفار سے ‘ہر حال’ اور ‘ہر مقام’ پر جنگ کرنا سید صاحب دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ یہ وہی فقہی موقف ہے جس کے مطابق کفار سے جنگ کی اصل علت کفر قرار دی گئی ہے۔ یعنی محض اسلام قبول کرنے سے انکار غیر مسلموں پر جنگ مسلط کرنے کی کافی وجہ ہے۔ نیز لفظ ‘عامۃالمسلمین’ سے صاف ظاہر ہے کہ سید صاحب پرائیویٹ جہاد کے جواز کے قائل ہیں اور اسے “مؤکد” سمجھتے ہیں۔ آپ کی تحریک تھی ہی پرائیویٹ جہاد۔ اس پرائیویت جہاد کے لیے مزید جواز مہیا کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

“جو حکومت اور سیاست کے مردِ میدان تھے، وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اس لیے مجبورًا چند غریب و بے سروسامان کمر ہمت باندھ کر کھڑے ہو گئے اور محض اللہ کے دین کی خدمت کے لیے اپنے گھروں سے نکل آئے۔” (سیرتِ سید احمد شہید، جلد دوم، ص 389)

اپنے وسیع تر ایجنڈے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“اس کے بعد میں اپنے مجاہدین کے ساتھ ہندوستان کا رخ کروں گا تاکہ اسے کفر و شرک سے پاک کیا جائے۔ (سیرتِ سید احمد شہید، جلد دوم، ص 410)

کیا آج کے جہادی بیانیے کے علم بردار اس سے مختلف کوئی بات کہتے ہیں؟

اب یہاں مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب کی چند نمائندہ کتب کے اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں جو اس جہادی بیانیے کی تشکیل کا سبب ہیں۔

مختصر القدوری، درس نظامی میں ابتدائی درجے کی فقہ کی کتاب ہے۔ یعنی جب طالب علم ابھی Teen ager ہوتا ہے۔ اس میں لکھا ہے:

(ترجمہ) “کفار سے جنگ کرنا واجب ہے، خواہ وہ ہم سے جنگ کرنے میں ابتدا نہ کریں” ( کتاب السیر، 52،مختصر القدوری)

خلافت یا اسلامی حکومت کس کے خلاف اقدامی جنگ یعنی جنگ میں پہل کرنا جائز سمجھتی ہے؟ صاحب قدوری لکھتے ہیں کہ جو لوگ دعوتِ اسلام کا انکار کر دیں، ان سے جنگ کی جائے گی:

جن لوگوں تک دین کی دعوت نہ پہنچی ہو ان سے جنگ کرنا جائز نہیں، البتہ دعوت کے بعد جنگ کرنا جائز ہے۔ بہتر ہے کہ جس تک دعوت پہنچ چکی ہو اسے بھی دعوت دی جائے، تاہم یہ واجب نہیں ہے۔ پھر اگر مخاطبین دعوت کا انکار کر دیں تو مسلمان اللہ کی مدد طلب کریں، ان منکرین پر جنگ مسلط کر دیں، ان پر منجنیقیں نصب کریں، آگ لگا دیں، ان پر پانی چھوڑ دیں، ان کے درخت کاٹ دیں، ان کے کھیت برباد کر دیں۔ ان منکرین پر تیر چلانے میں بھی کوئی حرج نہیں، چاہے وہاں مسلمان قیدی یا تاجر بھی ہوں، یا مسلمانوں کے بچوں یا مسلمان قیدیوں کو انہوں نے ڈھال بنایا ہوا ہو، مسلمان تیر چلانے سے ہاتھ مت روکیں، البتہ تیر چلاتے ہوئے کفار کو مارنے کی نیت کر لی جائے۔

 ( کتاب السیر، 52،مختصر القدوری)

 اس پر تبصرہ کرنے کے لیے میرے پاس مناسب الفاظ نہیں ہیں۔

ھدایہ درس نظامی کے آخری برسوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ اس میں لکھا ہے:

قتال کی نصوص کے عموم کی رو سے کفار سے قتال واجب ہے، اگرچہ جنگ کی ابتدا ان کی طرف سے نہ ہو۔ (کتاب السیر، الھدایہ فی شرح بدایۃ المجتھد)

امام سرخسی کی مبسوط اعلٰی درجوں میں تحقیقی مراحل میں پڑھی دیکھی جاتی ہے۔ فقہ حنفی کی نمائندہ کتاب ہے۔ اس میں ہے:

شرک کی شناعت جہالت اور عناد سے پیدا ہونے والی برائیوں میں سب سے بڑھ کر ہے، اس لیے کہ اس میں بلا تاویل انکارِ حق پایا جاتا ہے، چنانچہ ہر مسلمان پر بقدر استطاعت اس کا روکنا فرض ہے۔

یعنی صرف تبلیغ نہیں بلکہ بقدر استطاعت اسے روکنا بھی فرض ہے، اب جس کی جتنی استطاعت ہو۔ یہ مشرکین کے خلاف مستقل جنگ perpetual war کا بیانیہ ہے۔

امام سرخسی مزید لکھتے ہین:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، “مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک قتال جاری رکھوں جب تک وہ لا الہ الا اللہ کا اقرار نہ کر لیں، جب وہ ایسا کر لیں تو انہوں نے مجھ سے اپنی جان اور مال بچا لیا، سوائے اسلام کے حق کے اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔” مشرکین کے ساتھ جہاد کا فرض ہونا یہاں طے ہو جاتا ہے، اور یہ فرض قیامت تک قائم رہے گا، نبی ﷺ نے فرمایا، “جہاد جاری رہے گا میری بعثت سے لے کر میری امت کے اس آخری گروہ تک جو دجال سے جنگ کرے گا۔”

یعنی مشرک اقوام سے محض اس لیے قیامت تک جنگ جاری رکھی جائے گی کہ وہ مشرک ہیں۔

iii.            مبسوط کی درج ذیل عبارت بہت دلچسپ ہے:

ابن عباس فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ کسی قوم سے اس وقت تک جنگ نہیں کرتے تھے جب تک انہں اسلام کی دعوت نہ دیتے تھے، یہ اس لیے کہ اگر دعوت دیے بغیر قتال کیا جائے گا تو ان کفار کو معلوم نہ ہوگا کہ مسلمان ان سے کیوں لڑ رہے ہیں، ہو سکتا ہے وہ یہ سمجھیں کہ یہ لٹیرے ہیں، جن کا مقصد ان کا مال لوٹنا ہے۔

اس عبارت کا کیا مطلب ہے؟ یہ کہ جنگ کا آغاز کفار کی طرف سے کسی صورت میں نہیں ہوا، کفار کو معلوم ہی نہیں کہ ان پر جنگ کیوں مسلط کی جا رہی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ جنگ سے پہلے انہیں بتایا جائے ہم تم سے جنگ کیوں کرنے آئے ہیں۔

دور جدید میں بعض اہل علم نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اسلامی حکومت کی طرف سے کفار و مشرکین کے خلاف جنگ کی علت احناف کی جمہور فقہی روایت کے مطابق محاربہ یعنی جارحیت یا فتنہ و فساد ہے نہ کہ محض کفر۔ یعنی جب جنگ میں غیر مسلموں کی طرف سے پہل ہو تو لڑنا چاہیے، ورنہ نہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ کیا ہے جو پڑھایا جا رہا ہے۔ فقہ حنفی کے سرخیل، امام سرخسی کی اس عبارت سے نکلنے والے موقف کی کیا تاویل ممکن ہے؟ امام کی اس بات کی مزید وضاحت کے لیے مبسوط کی درج ذیل عبارت دیکھیے:

اگر صلح مسلمانوں کے حق میں بہتر نہ ہو، تو صلح نہیں کرنا چاہیے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے، “پس تم بودے نہ بنو اور صلح کی درخواست نہ کرو تم ہی غالب رہنے والے ہو”، نیز اس وجہ سے بھی صلح نہیں کرنی چاہیے کہ مشرکین سے جنگ کرنا فرض ہے اور بلا عذر فرض کو ترک کرنا جائز نہیں ہے۔  (باب الصلح الملوک و الموادعة، المبسوط ج 10 ص 86)

یعنی غیر مسلموں سے صلح کی وجہ کوئی مجبوری ہو تو ہو، محض جنگ سے رکنا صلح کی وجہ نہیں ہونی چاہیے، ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ مشرکین سے جنگ کرنا فرض ہے۔

غیر مسلموں سے جنگ کی وجہ محض ان کا کفر ہے یا ان کی طرف سے فتنہ و فساد اس میں حنبلی اور شافعی فقہا بالکل یکسو ہیں کہ غیر مسلموں کا کفر ہی ان کے ساتھ جنگ کرنے کا سبب ہے۔ جب کہ بعض حنفی فقہا غیر مسلموں سے جنگ کے دونوں اسباب گنواتے ہیں یعنی کفر اور جاریحیت دونوں وجوہات کی بنا پر ان سے جنگ کی جائے گی، یوں وہ ایک الجھاؤ پیدا کر دیتے ہیں، جس کی نشاندہی مولانا عمار خان ناصر نے، اپنے مضمون، ‘قتال کی علت: حنفی فقہا کا نقطہ نظر’ میں بیان کی ہے، لکھتے ہیں:

“اگر قتال کی علت فتنہ و فساد ہے تو ایسے کفار کے خلاف قتال کا اقدام کرنا کیونکر جائز ہے جو اہل اسلام کے خلاف فتنہ و فساد کا ارتکاب نہیں کرتے؟ اور کفار کی طرف سے کسی جارحیت کی ابتدا کے بغیر ان کے خلاف قتال کرنے کو نہ صرف مشروع بلکہ فرض کفایہ کیونکر قرار دیا گیا ہے؟ مزید یہ کہ کفار کے فساد سے بچنے کے لیے ان کو مسلمانوں کا محکوم بنانا کیوں ضروری ہے اور اگر ان کی طرف سے معاہدے کی پابندی کا اطمینان ہو تو ان کی سیاسی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے صلح کی گنجایش کیوں نہیں؟”

مزید لکھتے ہیں:

“کسی کافر کو اس کے کفر کی سزا اس دنیا میں دینے کا اختیار مسلمانوں کے پاس نہیں ہے تو قتال کے ذریعے سے اہل کفر کو مغلوب کر کے ان پر ’جزیہ‘ عائد کرنا، جو احناف کی تصریح کے مطابق ان کے کفر پر عقوبت اور سزا کی حیثیت رکھتا ہے، کس اصول پر روا ہے؟”

مدرسے کا ایک طالب علم جب فقہ کا یہ بیانیہ پڑھتا ہے اور دوسری طرف یہ دیکھتا ہے کہ مسلم حکومتیں غیر مسلم ریاستوں پر جنگ مسلط نہیں کرتیں اور نہ اس کا کوئی ارادہ ہی رکھتی ہیں، بلکہ الٹا ‘بلا عذر’ ان کے ساتھ صلح کر کے جہاد کے فریضے کو ہی ترک کرنے کی مرتکب ہو چکی ہیں، تو وہ اس مثالی اسلامی خلافت کے قیام کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہے، جس کا بیانیہ وہ فقہ میں پڑھتا ہے، یعنی ایسی خلافت جو آگے بڑھ کر اعلائے کلمۃ اللہ کا فریضہ سر انجام دے اور غلبہ حق کے لیے غیر مسلموں پر جنگ مسلط کر دے اور انہیں محکوم بنا لے۔

شاہ ولی اللہ اور مولانا مودودی علم کی دنیا کے وہ دو جلیل القدر علما ہیں جن کی فکر نے ہر مکتب فکر کو متاثر کیا ہے، ان کے اثرات عالمگیر ہیں۔ جہادی بیانیے کی تشکیل میں ان کے گہرے اثرات ہیں۔ ان کے افکار کا خلاصہ یہاں پیش کیا جاتا ہے:

شاہ ولی اللہ اپنی کتاب، حجۃاللہ البالغہ، میں جہاد کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

معلوم ہونا چاہیے کہ نبی ﷺ کو خلافتِ عامہ کے ساتھ بھیجا گیا تھا۔ دین کا غلبہ دیگر تمام ادیان پر جہاد اور اس کے آلات و وسائل کی تیاری کے بغیر ممکن نہیں۔ تو جب لوگ جہاد چھوڑ دیں گے، اپنے مال مویشیوں میں لگ جائیں گے، تو ذلت ان کو گھیر لے گی، اور دیگر ادیان والے ان پر غالب آ جائیں گے۔ ( حجۃ اللہ البالغۃ، محقق سید سابق، بیروت، دارالجیل، 2005، جلد دوم، ص 268)

مزید فرماتے ہیں:

مسلمانوں کا حکمران اہلِ کتاب اور مجوس سے لڑتا رہے یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو جائیں یا وہ اپنے ہاتھوں سے ذلت کے ساتھ جزیہ ادا کریں۔ (حجۃ اللہ البالغہ، ص 271)

نیز یہ بھی کہ:

اور تیسرے حال (یعنی اہلِ کتاب سے ذلت کے ساتھ جزیہ وصول کیا جائے) سے یہ مصلحت حاصل ہوتی ہے کہ کفار کی شان و شوکت کا زوال ہوتا ہے اور مسلمانوں کی شان و شوکت کا اظہار ہوتا ہے۔ اور نبی ﷺ انہیں مصالح کے لیے مبعوث فرمائے گئے تھے۔ (حجۃ اللہ البالغہ، ص 270)

 شاہ صاحب،مسلم حکمران کے لیے یہ لازم قرار دیتے ہیں کہ وہ غیر مسلم قوتوں کے خلاف ہر حال میں جنگ کرے۔ اور صلح بامر مجبوری کرے یعنی جب جنگ کی مطلوبہ طاقت نہ ہو۔ یعنی کہ اگر طاقت ہو صلح نہیں کی جائے گی:

مسلم حکمران، غیر مسلم حکومتو ں سے مال کے ساتھ یا بغیر مال کے صلح کر سکتا ہے۔ یہ اس لیے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مسلمان کفار سے لڑنے میں کمزور ہوتے ہیں، اس لیے انہیں صلح کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، یا کبھی انہیں مال کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ قوت حاصل کر سکیں، یا صلح کی ضرورت اس لیے ہوتی ہے کہ ایک قوم کے شر سے محفوظ ہو کر وہ دوسری قوم سے جہاد کر سکیں۔ (حجۃ اللہ البالغہ، ص 271)

 شاہ ولی اللہ جبر و اکراہ کے ذریعے انسانوں کو دینِ حق پر ایمان لانے اور انکار کرنے والوں کو اسی بنا پر قتل کرنے کے حق میں ہیں۔ شاہ صاحب کے نزدیک ایسا کرنا انسانوں کی بھلائی اور خدا کی رحمت کا تقاضا ہے۔ فرماتے ہیں:

بہت سے لوگوں پر گھٹیا خواہشات، درندگی والی صفات اور ملک سے محبت کے شیطانی خیالات غالب آ جاتے ہیں، ان کے آبا و اجداد کی رسمیں ان کے دلوں میں رچ بس جاتی ہیں، اس لیے ایمان لانے کے فوائد ان کی سمجھ میں نہیں آتے۔ اور نبی ﷺ ان کو جو حکم دیتے ہیں، وہ اس کی تابع داری نہیں کرتے، نہ وہ اسلام کی خوبیوں میں غور کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ مہربانی یہ نہیں ہے کہ ان پر حجت قائم کر کے ان کو چھوڑ دیا جائے، ان کے ساتھ مہربانی یہ ہے ان کی مرضی کے خلاف ان کو ایمان لانے پر مجبور کیا جائے، دوا کا کڑوا گھونٹ زبردستی ان کو پلایا جائے۔ یہی ان کے حق میں مفید ہے۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ جو ان میں سخت گیر اور طاقت ور ہیں ان کو تہ تیغ کر دیا جائے، یا ان کا شیرازہ منتشر کر دیا جائے، اور ان کے اموال چھین لیے جائیں، تاکہ ان کی طاقت ٹوٹ جائے اور وہ بے بس ہو کر رہ جائیں۔ جب ان کی رکاوٹ ہٹ جائے گی تو ان کے متبیعن اور آل اولاد ایمان کی طرف مائل ہوں گے، اور اطاعت قبول کریں گے۔۔۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو جہاد میں گرفتار و مغلوب ہو کر آتے ہیں اسلام سے بہرہ ور ہو جاتے ہیں۔ ایک حدیث میں جہاد کی اس مصلحت کی طرف اشارہ آیا ہے۔ ارشاد فرمایا: “ایسے لوگوں پر اللہ کو تعجب ہو گا جو جنت میں بیڑیوں سمیت داخل ہوں گے۔” (حجہ اللہ البالغہ، 263)

شاہ ولی اللہ کے مشہور شارح، محمد الغزالی ، شاہ صاحب کے ان افکار کا خلاصہ یوں لکھتے ہیں:

“Explaining this distinctive ideological feature of the Islamic state, Shāh Walī Allāh points out that the “supremacy of the Religion of Islām over all other religions was inconceivable without contemplating among the Muslims a khalīfah, who can put those who might transgress the ideological frontiers, and commit acts which have been prohibited by their Religion or omit their obligations under it, into open disrepute”. Further, he should be able to subdue the followers of all other religions and receive Jizyah from them, while they submit to the supremacy of the Sharī‘ah. For, in his view, without establishing the supremacy of Islām over other religions and creeds, no preference of the Muslim community over non-Muslims could be visibly demonstrated.” (The Sociopolitical Thoughts of Shah Wali Ullah, Institute of Islamic Thought, Islmababd, 2001, pg, 98)

شاہ ولی اللہ، اسلامی ریاست کی نمایاں نظریاتی خدو خال بیان کرتے ہوئے واضح کرتے ہیں کہ اسلام کا غلبہ دیگر ادیان پر مسلمانوں کے درمیان ایک خلیفہ کی موجودگی کے بغیر ممکن نہیں، ایسا خلیفہ جو نظریاتی سرحدوں کو پامال کرنے والوں، اسلام کے ممنوعات کی خلاف ورزی کرنے والوں، یا اس کے لاگو کردہ واجبات سے پہلو تہی کرنے والوں کو عاجز کر سکے۔ مزید یہ کہ وہ دیگر تمام ادیان کے پیروکاروں کو مطیع کر سکے اور ان سے جزیہ وصول کر سکے اس حال میں کہ وہ اسلامی شریعت کی بالادستی کے سامنے سر تسلیم خم کردیں۔ یہ سب اس لیے کہ شاہ صاحب کے مطابق، دیگر ادیان پر اسلام کی برتری قائم کیے بغیر غیر مسلمانوں پرمسلمانوں کی برتری واضح طور پر ثابت نہیں ہوسکتی۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).