مذھبی عسکریت پسندی کے جہادی بیانیے کی تشکیل میں مدارس کا کردار (3)


مولانا مودودی کے سیاسی اسلام کے بیانیے کے بارے میں معلوم ہے کہ مولانا نے اسلام اور ریاست کو متراف قرار دیا، اسلام کا مقصد حاکمیتِ الہیہ کا قیام بتایا اور اس کے لیے استدلال کی پوری عمارت کھڑی کی۔ انہوں نے غیر اسلامی نظام کو طاغوت قرار دیا جس کے تحت مسلمانوں کا راضی ہو کر رہنا خلاف اسلام قرار دیا اور مسلمانوں پر لازم قرار دیا کہ وہ جہاں بھی ہوں اسلام کے سیاسی غلبہ کی جہد و جہد کریں، یہ دینی فریضہ ہے جس کا ترک خدا سے بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:

  1. “مسلمان اپنے اپنے ایمان کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے جب تک وہ اسلامی معاشرہ اور اسلامی حکومت قائم نہ کر لیں۔ خدا کے قانون کی بالا دستی قائم کیے بغیر بحیثیت مسلمان زندگی نہیں گزار سکتے۔۔۔۔ انبیا اسی لیے مبعوث کیے گیے تھے کہ خدا کی حاکمیت کا نظام قائم کریں۔” (اسلامی ریاست ص 59)
  2. “وہ (اسلام) اس بات کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ قوانین تمدن، جن پر اسٹیٹ کا نظام قائم ہوتا ہے، خدا کے سوا کسی اور کے بنائے ہوئے ہوں، اور خدا کی زمین پر اس کے باغی اس کو نافذ کریں، اور مسلمان ان کے تابع ہو کر رہیں۔۔۔ اسلام یہ تقاضا کرتا کہ مسلمان آگے بڑھ کر نظام زندگی پر قبضہ کریں۔” (اسلامی ریاست ص 67)

iii.            “اسلام کا اپنے مخصوص نظام زندگی کی طرف دعوت دینا عین اپنی فطرت میں اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ دوسرے نظامات کو ہٹا کر ان کی جگہ اپنے نظام کی اقامت کا مطالبہ کرے اور اس مقصد کے لے اپنے پیروؤں کو جد و جہد کی ان تمام صورتوں کو اختیار کرنے کا حکم دے جن سے یہ مقصد حاصل ہوا کرتا ہے۔ ” (اسلامی ریاست، ص 66)

  1. مولانا مودودی درج ذیل آیت سے مسلمانوں کی عالمگیر سیادت کا استدلال کرتے ہیں:

الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ وَلِلَّـهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (سورہ الحج، 22:41)

“یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔”

یعنی مولانا مودودی منکر کے دائرے میں کفر و شرک اور بدی کے تمام مظاہر کو شامل کرتے ہیں اور پھر آخری درجے میں طاقت سے ان کو مٹانے کا حکم اس آیت سے مستنبط کرتے ہیں۔ پھر قرآن مجید میں جہاں جہاں ‘الارض’ یعنی زمین پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہونے کا ذکر آیا ہے، اس سے وہ پورا کرہ ارض مراد لیتے ہیں۔ (ملخص)۔ (الجھاد فی الاسلام، 91-92)

مولانا مودودی سے ہی متاثر ہو کر سید قطب نے معالم الطریق لکھی، جس نے عالمی سطح پر خصوصا عرب جہادی تحریکوں میں اسی جہادی بیانیے کو مزید ترویج دی۔

اب جمہوریت کے بارے میں، روایتی بیانیہ کے حاملین اہل علم کا موقف جان لیجیے:

  1. قاری طیب قاسمی اپنی کتاب “فطری حکومت”، میں لکھتے ہیں:

“یہ (جمہوریت) رب تعالیٰ کی صفت ملکیت میں بھی شرک ہے اور صفتِ علم میں بھی شرک ہے۔”

  1. احسن الفتاویٰ میں مفتی رشید احمد،ج 6 ص 26 میں لکھتے ہیں :

‘‘یہ تمام برگ و بار مغربی جمہوریت کے شجرہ خبیثہ کی پیداوار ہے ۔ اسلام میں اس کافرانہ نظام کی کوئی گنجائش نہیں ’’۔

iii.            مولانا یوسف لدھیانوی آپ کے مسائل اور ان کا حل، ج 8 ص 176 میں لکھتے ہیں:

‘‘جمہوریت کا نہ صرف یہ کہ اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ اسلام کے سیاسی نظریے کی ضد ہے (ظاہر ہے اسلام کی ضد کفر ہی ہے)’’۔

  1. مولانا عاشق الٰہی بلند شہری، تفسیر انوار البیان ، ج 1 ص 518 میں لکھتے ہیں :

‘‘ان کی لائی ہوئی جمہوریت بالکل جاہلانہ جمہوریت ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔’’

  1. مولانا فضل محمد، اسلامی خلافت، ص 117 میں لکھتے ہیں:

‘‘اسلامی شرعی شوریٰ اور موجودہ جمہوریت کے درمیان اتنا فرق ہے جتنا آسمان اور زمین میں ، وہ مغربی آزاد قوم کی افراتفری کا نام ہے۔ جس کا شرعی شورائی نظام سے دور کا واسطہ بھی نہیں’’۔

  1. مولانا تقی عثمانی دور حاضر کے معتدل ترین علما میں سے ہیں، لکھتے ہیں:

“جمہوریت میں عوام خود حاکم ہوتے ہیں، کسی الہی قانون کے پابند نہیں تو وہ خود فیصلہ کریں گے کیا چیز اچھی ہے یا بری۔۔۔ “جمہوریت سیکولرازم کے بغیر نہیں چل سکتی۔” (اسلام اور سیاسی نظریات، مولانا تقی عثمانی، ص 146)

اب جب طلبہ کو یہ بتایا جائے گا کہ جمہوریت غیر اسلامی نظام ہے تو وہ اس نظام حکومت اور آئین کے بارے میں جو موقف اپنائیں گے وہ ظاہر ہے۔ علما تو اپنی دو عملی کے لیے گنجائش نکال لیتے ہیں یعنی ایک طرف وہ جمہوریت کو بھی غلط کہتے ہیں لیکن آئین سے وفاداری کا اعلان بھی کرتے ہیں، لیکن ان کے سادہ مزاج طلبہ پوچھتے ہیں کہ کیا آئین بھی انسانوں نے جمہوریت کے اکثریتی رائے کے اصول پر نہیں بنایا ہے؟ کل اگر اکثریتی رائے سے اس میں غیر اسلامی شقیں ڈال دی جائیں یا پورے آئین کو ہی سیکولر بنا دیا جائے تو کیا جمہوری اصولوں پر اسے بھی مان لیا جائے گا؟ اگر نہیں، تو پھر آج اس کی حمایت کیوں کی جا رہی ہے؟ اس لیے نہ جمہوریت درست ہے نہ انسانوں کا بنایا ہوا آئین۔ یہ طلبہ اپنے اساتذہ کو ان کا ہی پڑھایا ہوا سبق سنانے لگتے ہیں اور اساتذہ کے پاس کوئی جواب بھی نہیں ہوتا۔ ذیل میں مدرسہ کے ہی ایک طالب علم، طالبان کے جہادی کمانڈر مولانا عصمت اللہ معاویہ کے ایک طویل خط کا آخری پیرا نقل کیا جاتا ہے، جو انہوں نے علما کو مخاطب کر کے لکھا تھا:

“ان بنیادی نکات کے بعد آپ سےعرض کروں گا …… جائیے، جید علمائے کرام سے جاکر پوچھئے کہ اسلامی خلافت کے احیا اور نفاذ کی محنت ہم پر واجب ہے کہ نہیں۔ میں سرکاری و درباری صاحب جبہ و دستار کی نہیں علمائے حق کی بات کررہا ہوں۔ شریعت کا نفاذ، خلافت کا احیا واجب ہے ….. علمائے امت کا اس پر اجماع ہے ….. بلکہ خلافت کے احیا کے وجوب کو تو اہل سنت کے عقیدے کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے بغیر اسلام اور اہل اسلام کا شیرازہ ہی بکھر جاتا ہے، یہی سچ ہے ….. تو پھر دیر کس بات کی، ڈر کس بات کا، خوف و اندیشہ کس چیز کا؟ اٹھو! اب اسلام کے رستے کی رکاوٹیں بیلٹ سے نہیں بُلٹ سے دور کر دو، یہ ہڑتالیں، یہ ریفرنڈم، یہ دھرنے، یہ جلوس سب جمہوری ایجاد ہیں۔ اس سے اُمت کے حقیقی اثاثوں کی تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، تم اپنوں کے سر پھوڑو ، اپنوں کی دوکانیں توڑو، املاک کو تباہ کرو، اپنے گلے پھاڑو۔ پولیس، فوج تمہیں ماریں تم انہیں مارو، یہ سب تماشہ ہے …… بہکاوا ہے …….. بس بند ہو جانی چاہئیں یہ سب فضول مشقتیں …… آئیے بسم اللہ کیجئے۔ اپنے مجاہد بھائیوں کے ساتھ مل کر جامعہ حفصہ کی شہیدہ بہنوں کے خوابوں کی تعبیر کے لیے، لال مسجد کے شہید بھائیوں کی امنگوں اور تمناؤں کو عملی روپ دینے کے لیے، شریعت یا شہادت کے حسین نعرے کو لے کر آگے بڑھو …… بڑھو کہ جنت ہے منتظر …… حور و ملائکہ ہیں صف بہ صف ……. توڑ دو غلامی کی زنجیریں، چھوڑ دو طاغوتی تدبیریں، پاک شریعت پاک رستے سے ہی آئے گی …… جب سینوں کا پاک خون پائے گی !!!” (نوائے افغان جہاد 2013)

یہ بیانیہ درست ہے یا نہیں اس سے قطع نظر کہنا یہ ہے کہ اہل مدارس کو یہ ذمہ داری قبول کرنا ہوگی کہ جہادی بیانیہ ان کے نصاب و روایتی فقہ و فکر سے پروان چڑھا ہے اور اب بھی ان سے ہی غذا پاتا ہے۔ اصولی طور پر وہ اور جہادی بیانیے کے علم برادر ایک ہی صفحے پر ہیں۔ اختلاف صرف حکمت عملی میں کیا جاتا ہے۔

اس مسئلے کو جب تک اس کی بنیاد سے نہیں دیکھا جائے گا، اس کا کوئی قابل عمل اور موثر حل پیش نہیں کیا جا سکتا۔ آپ شاخیں کاٹتے رہیں گے اور درخت نئے نئے برگ و بار پیدا کرتا رہے گا۔

یہ بیانیہ اگر درست ہے تو علی الاعلان بتایا جائے کہ ایسا ہی ہے، اگر اس میں غلطی ہوئی ہے تو برملا اس کا اظہار کیا جائے۔ اب محض مذمت کر کے آپ اس سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔

(مکمل)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments