مشال خان، رحم دیر سے آتا ہے!


پچھلے پچیس برس میں تقریباً نوے لوگ ایسے ہی مشتعل ہجوم کا شکار ہو کر مارے گئے لیکن قومی ضمیر کو وہ سب اس طرح جھنجھوڑ کر بیدار نہیں کر سکے جتنا یہ ایک اکیلا واقعہ کر گیا۔ اخبار پڑھتے ہوئے، ٹی وی پر نظریں جمائے، کمپیوٹر پر بیٹھے یا اچھے بھلے دفتر میں کام کرتے ہوئے جہاں کوئی کڑیل جوان نظر آتا ہے مشال خان یاد آ جاتا ہے۔ لوگ بیٹیوں کے پیدا ہونے پر دعائیں دیتے تھے کہ خدا اچھے نصیب کرے، اپنے گھروں میں آباد رہیں، جہاں رہیں خوش رہیں، اب تو بیٹوں کے لیے بھی یہی دعا دینا فرض ہو چکا۔ غضب خدا کا، ایسا وجیہہ اور قابل نوجوان اس بے دردی سے مارا جائے کہ اسے چھڑانے والا کوئی نہ ہو، نہ کوئی استاد، نہ کوئی طالب علم، نہ کوئی دوست، نہ کوئی انسانیت کا مارا ہوا بے غرض آدمی، کوئی بھی تو نہیں تھا وہاں جو اس کے لیے ڈھال بن جاتا، کوئی ایک باکردار اتنے بڑے ہجوم میں نہیں تھا!

مشال کے والد کا ضبط دیکھا جائے تو بس ایک جملہ کافی ہے، “مشال خان کا مرنا برداشت ہو گیا لیکن اس کے باپ کا صبر برداشت نہیں ہوتا۔” واللہ کہ نہیں ہوتا۔ میڈیا ان سے مختلف سوال کرتا ہے اور وہ جس وقار اور استقامت سے جواب دیتے ہیں، وہ ناقابل بیان ہیں۔ فانی انسان کے نصیب میں اتنا صبر شاید تبھی آ سکتا ہے جب وہ ایسے بڑے سانحے سے گزرے اور وہ ایک بوڑھا پشتون باپ ہو یا پھر کوئی ولی اللہ ہو!

مشال کی والدہ کا بیان سن کر نہ جانے کتنی آنکھیں بھیگ گئی ہوں گی۔ کہنے لگیں جب میں نے اس کے ہاتھ چومے تو اس کی انگلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ چنگیز خان کا نام تاریخ میں بربریت کی علامت ہوا لیکن وہ کچھ بھی نہیں تھا۔ مشال کو مارنے والے اس گروہ میں شامل ہر شقی القلب کا نام معلوم کیجیے اور سفاکیت کا ایک نیا مترادف جانیے۔ یہ سب وہ ہیں جو ہمارے آس پاس رہتے ہیں۔ کوئی بھی چلتا پھرتا انسان کس وقت ایسے ہجوم میں شامل ہو کر درندہ بن جائے، کسے گاڑ دے، اب کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مشال خان ہی کے لیے کہا گیا تھا، تجھ کو کس پھول کا کفن ہم دیں / تو جدا ایسے موسموں میں ہوا / جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے۔ اور کیا شک ہے کہ ہمارے ہاتھ، ہمارے دماغ، ہمارے دل، ہر قسم کی رواداری، محبت اور انسانیت سے خالی ہو چکے ہیں۔

یہ پاگل ہجوم والا معاملہ کوئی نیا نہیں تھا، وقت کرتا ہے پرورش برسوں / حادثہ ایک دم نہیں ہوتا، سیالکوٹ واقعہ، مسیحی جوڑے کو جلانے والا کیس، چرچ دھماکا ہونے کے بعد لوگوں کو باندھ کر جلا دینا اور یہاں تک کہ دو ہزار بارہ میں یہی ہجوم تھانے پر حملہ آور ہو کر ایک ملزم کو مار جاتا ہے اور پولیس کچھ نہیں کر پاتی۔ یاد آیا، پولیس والے تو یہاں بھی تھے، مشال کے آس پاس، کیا وہ اس بے رحم ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ایک ہوائی فائر بھی نہیں کر سکتے تھے؟ مطلب کچھ بھی نہیں کیا؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اسلحہ جو ناکے سے بھاگتے ہوئے جوانوں پر ایک سیکنڈ میں نکل آتا ہے اور چل بھی جاتا ہے وہ وہاں باہر ہی نہ آ پایا؟ خبر ہے کہ پولیس میں اعلی حکام نے اس واقعے کا نوٹس لیا، موقعے پر موجود پولیس والوں کی سستی پر سخت ناراضی کا اظہار بھی کیا اور اب تک تو باقاعدہ تحقیقاتی معاملات بھی بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ لیکن فیصلہ ہونا کس بات کا ہے، کیا مشال جائز مارا گیا یا ناجائز؟ اگر اس کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ کھنگالنے کے بجائے مارنے والوں اور متعلقہ یونیورسٹی ملازمین کے اکاؤنٹس اور فون چیک کیے جائیں تو شاید کئی نئے پہلو سامنے آ جائیں۔

جب صلاح الدین خان محسود، آئی جی خیبر پختون خواہ یہ معذرت خواہانہ بیان دینے پر مجبور ہوں کہ خیبر پولیس فورس میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو قتل کرنے والے ہجوم سے ہمدردی رکھتے ہیں، اور میں نے زیادہ دلچسپی دکھائی تو میں بھی پار لگ سکتا ہوں، اور یہ بیان صرف انگریزی اخباروں میں گھومتا نظر آئے تو اس بات سے ہمارے معاشرے کی اخلاقی جراتوں کی آخری حدیں بہت آسانی سے ڈیفائن ہو سکتی ہیں۔

اس کیس میں ملوث چوبیس لوگ تاحال گرفتار ہو چکے ہیں، اگر ان پر بلوے کی دفعات لگتی ہیں، اگر ان کے خلاف ویڈیو کے علاوہ کوئی گواہی نہیں آتی، اگر یونیورسٹی ایسے ہی الٹے سیدھے نوٹیفیکیشن نکالتی رہتی ہے تو وہی ہو گا جو مشال خان کا باپ پہلے کہہ چکا ہے۔ صبر ایوب رکھنے والا باپ کہتا ہے کہ یہ سب میرے بیٹے ہیں، میں نہیں چاہتا کہ ایسا کسی اور کے ساتھ ہو۔ ہم غریب آدمی ہیں اور ایسا مشکل ہوتا ہے کہ غریب کو انصاف ملے۔ اپنے پشتو بیان میں کہا کہ ہم پرامن لوگ ہیں، برداشت والے لوگ ہیں، ہم صبر کر لیں گے، ہم فساد اور لڑائی کے خلاف ہیں۔ اگر جنگ میں عزت ہوتی تو کتے حکمران ہوتے کیوں کہ وہ سب سے زیادہ لڑتے ہیں۔ یہ سبق اس بیٹے کا باپ دیتا ہے وحشیوں کے ہاتھوں بے دردی سے مارا گیا، جس کی لاش پر چھلانگیں لگائی گئیں، اس کا مثلہ ہوا، تب بھی ٹھنڈے نہ ہوئے تو گولیاں اتاریں اور پھر سب کچھ اتار کر بے لباس لاشے کو روندتے رہے۔ آفرین ہے اس باپ کے دل پر اور آفرین ہے ان لوگوں پر جو اب بھی اگر مگر کے چھتنار درخت تلے لیٹ کر آنکھیں موندے ہوئے ہیں۔

اس واقعے کے چھ سات گھنٹے بعد مین سٹریم میڈیا کو نوٹس لینا یاد آیا، تیس بتیس گھنٹے بعد عدالت عالیہ نے سوموٹو لے لیا، اسی کے آگے پیچھے وزیر اعظم کا مذمتی بیان آیا، چوہدری نثار صاحب کی پریس کانفرنس ہوئی، محترمہ مریم نواز کے ٹوئٹس آئے۔ سوال یہ ہے کہ وہ ویڈیو تیس گھنٹے تک سوشل میڈیا پر گھومتی ہے اور صاحبان اقتدار میں سے کوئی بھی معاملے کی نزاکت کا احساس نہیں کر سکتا؟ مشال خان کے جنازے میں شامل ہونے سے لوگوں کو روکا جاتا ہے اور تب تک ایک دو بندوق والے روشن ضمیروں کے سوا کوئی ایسی حمایت موجود نہیں ہوتی جس پر تکیہ کر کے لوگ گھروں سے نکل سکیں۔ آخرکاراسے بھی بھٹو کی طرح چار بندے جنازہ پڑھ کے دفنا دیتے ہیں۔ فیصلہ جنازے نہیں، تاریخ کرتی ہے۔ خیبر پختون خواہ کے وزرا اس وقت نہ جانے کہاں تھے جب دو مولویوں نے اس کا جنازہ پڑھانے سے انکار کیا، کس سیف زون میں تھے جو ایک کچلے ہوئے لاشے کو سکون سے دفنانے کا تحفظ بھی نہ دے پائے؟ انٹرنیٹ کی اس قدر تیز دنیا میں ایسا ردعمل ناقابل فہم ہے جو ڈیڑھ دن بعد آئے۔ حد ہے اور بے حد ہے!

مشال خان کے خلاف منظم افواہیں اس کی موت کے فوراً بعد پھیلنا شروع ہوئیں اور پورے سوشل میڈیا کو گھیر لیا۔ اس کے نام سے جعلی اکاؤنٹ بنائے گئے، اس کے کمنٹس ایڈٹ کر کے اسے قصوروار ثابت کرنے کی کوشش ہوئی اور نہ جانے کیا کچھ مزید ہو جاتا لیکن اس پر پانی یوں پھرا کہ اس طالب علم لڑکے نے اقرار جرم کر لیا جس نے مشال کے خلاف تقریر کی تھی اور اس پر الزامات لگائے تھے۔ یہ الزامات یونیورسٹی انتظامیہ کے دباؤ پر تین لڑکوں کے خلاف لگائے گئے جس کے بعد وہاں موجود سیکیورٹی انچارج جوش میں آ گئے اور فرمایا کہ باقی کام وہ خود کریں گے، پھر باقی کام ہو گیا۔
مشال واپس نہیں آ سکتا، اعترافی بیان ایک ماں باپ کو ان کا بیٹا اور بہنوں کو بھائی نہیں لا کر دے سکتے لیکن آنے والے وقت میں بچوں کو مشال بننے سے بچایا جا سکتا ہے۔ اس کا واحد حل یہی ہے کہ معاشرے کی فکری بنیادیں مضبوط کی جائیں اور مذہب کے نام پر ذاتی دشمنیاں نمٹانے والوں سے قانون عین اسی طرح ڈیل کرے جیسے الزام ثابت ہونے پر ملزمان کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے۔ مشال کیس (افسوس کہ ایک جوانا مرگ انسان اب صرف ایک کیس ہے، ہیہات!) حکومت کے لیے ایک لٹمس ٹیسٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر مقدمہ جلد فیصل ہوتا ہے، مجرموں کو عبرتناک سزائیں دی جاتی ہیں اور آئندہ ایسے واقعات سے بچنے کے لیے کوئی قانون وضع کیا جاتا ہے تو کم از کم ایک مظلوم کی قربانی ضائع نہیں جائے گی اور یہ اندازہ بھی ہو جائے گا کہ اس معاملے میں کون کتنا سنجیدہ ہے۔
اناللہ وانا الیہ راجعون۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain