ماں کے نام ٹوٹی انگلیوں سے لکھا خط


میں نے ہاتھ اپنا اٹھایا تھا

کلمہ ان کو سنایا تھا

قسم کھائی اور وعدہ دہرایا تھا

لیکن وہ نہ کچھ سنتے تھے

وہ ہجوم جو چلاتا تھا

زور زور سے نعرے لگاتا تھا

میں حیرانگی سے ان کو دیکھتا تھا

پھر ایک عاشق نے

اپنا پستول نکالا تھا

ایک نعرہ اس نے لگایا تھا

گولی اس نے چلائی تھی

میرے خون کی لالی

ان کے چہروں کی سرخی

دونوں کا رنگ لال تھا

پھر ایک عاشق نے پتھر اٹھایا

تاک کر اس نے نشانہ لگایا

پھر تو پتھروں کی برسات تھی

نہ صبح تھی نہ شام تھی

بس ایک درد کی کالی رات تھی

پھر درد کا میرے اختتام ہوا

پر دکھ نہ میرا تمام ہوا

میں دور کھڑا تھا جسم سے اپنے

میرے مردہ جسم کو وہ گھسیٹھے تھے

کپڑے اس کے پھاڑتے تھے

پتھر اس پر برساتے تھے

چھلانگ اس پر لگاتے تھے

پھر کسی نے کہا آگ لگاؤ

کوئی تیل لینے چلا گیا

کوئی ماچس لئے کھڑا رہا

آخر قانون کے رکھوالوں نے

میرے برہنہ جسم کو چھپایا

میری ماں میرے باپ کے لئے

ایک مردے کو بچایا

پھر وہ مجھے گھر لے گئے

کوئی نہ مجھے ہاتھ لگاتا تھا

کوئی نہ کلمہ سناتا تھا

میں دور کھڑا دیکھتا تھا

میری ماں حیرانگی سے

 میرے جسم کو تکتی تھی

یہ نہ اس کا لال تھا

اس کا لال تو پیارا تھا

اس کی آنکھوں کا تارا تھا

جو اپنے نرم ہاتھوں کو

اس کے چہرے پر پھیرتا تھا

یہ نہ اس کا لال تھا

میرا باپ

میرے باپ نے بڑی ہمت دکھائی

اپنے آنسو ضبط کیے

 دل پر بہت سے پتھر لئے

مٹی کے ٹوٹے مجسمے پر اس نے

شفاف پانی ڈالا تھا

میری ماں انتظار کرتی رہی

جب باپ نے مجھے کفن پہنایا

تب اس کو احساس ہوا

میرا ہاتھ اس نے اٹھایا

اپنے چہرے پر لگایا

 لیکن یہ وہ لمس نہ تھا

کیوں کہ

میری انگلیاں تو ٹوٹی ہوئیں تھیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).