مشال خان آخری شہید نہیں تھا….


 ایک تو میں اس ملک کے خود ساختہ اور فی البدیہیہ دانشوروں سے سخت تنگ آ گیا ہوں۔ ذرا کوئی حادثہ ہوا نہیں کہ یہ چلے ٹسوے بہانے۔ سوشل میڈیا ہو یا اخبارات کے کالم، فیس بک کا سٹیٹس ہو یا ٹوئیٹ، بلاگ لکھنا ہو یا ٹی وی پروگرام کرنا ہو، ایسے ایسے غم کے سفینے پیش کرتے ہیںکہ سار ا عالم ہی ان کے غم میں ڈوب جاتا ہے۔ شاعر ہیں تو ایسی نظم لکھیں گے کہ دل سینے سے باہر آ جائے گا، بلاگر ہیں تو غم کے ایسے ایسے استعارے تحریر کریں گے کہ مارے الم کے پتھر بھی موم ہو جائے۔ کالم نگار تو کما ل ہی کر دیتے ہیں حادثے کا ایسا نقشہ کھینچتے ہیں کہ سانحہ عظیم بن جاتا ہے۔ لوگ رو، رو کر پاگل ہو جاتے ہیں۔ رہی سہی کسر ٹی وی اینکر پوری کر دیتے ہیں جو کمی لفاظی سے رہ جاتی ہے وہ منظر سے پوری کی جاتی ہے۔ دل دہلا دینے والے منظر، باپ کا صبر، بہن کا حوصلہ اور ماں کے آنسو، پوری قوم کا جگر چھلنی کرنے کے لئے بہت کافی ہوتے ہی۔ آخر ایسا ہوا ہی کیا ہے کہ جس کا ماتم کیا جا رہا ہے۔ ایک نوجوان بچے ہی کو مارا ہے نا؟ ایک بچے کے سر پر اینٹیں ہی تو ماری ہیں؟ ایک نوجوان پر ایک بھیانک الزام لگا کر اس کی لاش کو ٹھڈے ہی تو مارے ہیں؟ ایک باپ کو بیٹے سے، ایک ماں کو اولادسے ، ایک بہن کو بھائی سے ہی تو محروم کیا ہے۔ کوئی قیامت تو نہیں آئی۔ اور میری بات کان کھول کر سن لیں ابھی قیامت نہیں آئی۔ ابھی صرف قرب قیامت کے آثار نظر آئے ہیں۔ ابھی صرف ابتدا ہوئی ہے۔ ابھی غم کی رات شروع ہوئی ہے۔ قیامت ابھی نہیں آئی.

اس دور کے ہمارے دانشوروں کے دماغ چھوٹے اور دل تنگ ہیں ۔ نظر کوتاہ اور سوچ محدود ہے۔ یہ ایک واقعے کو دیکھ کر رونا شروع کر دیتے ہیں۔ حال کے الم پر ماتم ڈال دیتے ہیں۔ موجود کا غم مناتے رہتے ہیں۔ ماضی کو بھول جاتے ہیں۔ تاریخ کو آنسووں سے مٹا نے کی سعی کرتے ہیں ۔ لیکن تاریخ کی غلطیاں آنسووں سے نہیں مٹتیں۔ اس کے لئے نسلوں کو بے سبب خون بہانا پڑتا ہے۔ ایک مشعال کو تو چھوڑیں، کئی نسلوں کے کو ٹھڈے کھانے پڑتے ہیں۔

آج کے ماتم کناں دانش وروں کو یاد تو ہو گا۔ یہی ملک تھا۔ یہی لوگ تھے۔ جب ایک ڈکٹیٹر امیر المومنین کہلایا کرتا تھا۔ جب ساری دنیا پرمسلم امہ غلبے کا خواب ہمیں دکھایا گیا تھا۔ جب فاتح جیسی کتابیں ہمارے سینوں کو منور کیا کرتی تھیں۔ جب ہم افغانستان کو اپنا صوبہ بنانے چل پڑے تھے۔ جب مجلس شوری کے اجلاس ہوا کرتے تھے۔ جب مدرسوں کی فنڈنگ باعث ثواب ہو ا کرتی تھی۔ جب ہم افغانستان کے جہاد کے لئے اپنے گھر میں مجاہدین کی نرسریاں لگایا کرتے تھے۔ جب کلاشنکوف رکھنا برکت کی بات سمجھی جاتی تھی۔ جب کافروں کو سبق سکھانا ہمار ا فرض اولین تھا۔ جب ڈالر بوریاں بھر بھر کر آیا کرتے تھے۔ جب آئین کوپامال کرنے والے میر المومنین قوم سے خطاب کرتے ہوئے آبدیدہ ہو کر گناہ گاروں کو نیک عمل کی تلقین کیا کرتے تھے۔ یہ وہی وقت تھا جب ہم نے مہاجریں کے لئے سرحدیں کھول دی تھیں۔ جب سکول میں پتلون پہننا کفر کی نشانی قرار دے دی گئی تھی۔ جب سب بچے ملیشیا کا لباس پہنتے تھے۔ سلیبس میں بھی جہاد کی تلقین کی جاتی تھی۔ یہی وقت تھا جب جہاں دیدہ بیوروکریٹ سرشام خمار کی محفلیں سجا کرتے تھے اور دن کو امیر المومنین کی خوشنودی کے لئے ظہر کی نماز بغیر وضو کے پڑھا کرتے تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب منافقت عروج پر تھی۔ جب مذہب سیاست میں در آیا تھا۔ جب مذہب سے ذاتی مفادات پورے کئے جاتے تھے۔ جب شدت کے سبق پر فخر کیا جاتا تھا۔ جب گولیاں چلانے کو بہادری مانا جاتا تھا، جب بم چلانا دانش مندی تصور کیا جاتا تھا۔ جب روس کو سبق سکھانا ہماری معراج مانا جاتا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب شاعر جلاوطن کئے جاتے تھے۔ قلم کاروں کا پابند سلاسل کیا جاتا تھا۔ فلم کی ہیروئینوں سے پردے کی فرمایش کی جاتی تھی۔

اس زمانے میں منافقت کی جو فصل ہم نے بوئی اب وہ پک کر تیار ہو گئی ہے۔ اب سروں کے کٹنے کا مر حلہ آگیا ہے۔ اب ہر کسی پر کفر کا فتوی لگانے کا مرحلہ آگیا ہے۔ ابھی تو ایک مشعال کا ہی سر کٹ کر گرا ہے ابھی تو ان نفرت کے درختوں میں بہت زہریلا پھل باقی ہے۔ابھی تو اس آگ میں کو گھر گھر جلنا ہے۔ توہین کا من مانا الزام لگا کر ابھی تو بہت سی لاشوں کو گلیوں میں گھسٹنا ہے۔ کیا معلوم کل کو عورت کے ہنسنے کو کفر قرار دے دیا جائے۔ پتلون پہننے والے کو مشرک بنا دیا جائے۔ داڑھی نہ رکھنے والے کو پھانسی لٹکا دیا جائے۔ ٹخنے سے اوپر شلوار نہ پہننے والوں کے سر قلم کرنے کا حکم دے دیا جائے۔ شٹل کاک برقع نہ لینے والی عورتوں کو فاحشہ قرار دے دیا جائے۔

موجودہ دور میں حکومتوں کی جانب سے لکھاریوں پر بہت زور ڈالا جا رہا کہ بیانئیے کو تبدیل کریں۔ بیانیئے کی اس دوڑ میں وہ بھی شامل ہو گے ہیں جنہیں اس لفظ کے معنی بھی نہیں معلوم۔ شاعروں، ادیبوں، کالم نگاروں، افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کو بیانیئے کی تبدیلی کی ترغیب دلائی جا رہی ہے۔سوشل میڈیا پر بھی اس کا بہت چرچا ہے۔ پر تعیش سمینیار اور کانفرنسز بھی اس موضوع پر کی جا رہی ہیں۔ حکومتوں کو اس بات کا ادراک نہیں کہ ہمارے قلم کار تو مدت سے یہ کام کر رہے ہیں۔ راشد کی زندگی اسی مسئلے میں تمام ہوئی، فیض ساری عمر یہی پر چار کرتے رہے، حبیب جالب بھی یہی ہیغام دیتے رہے، فراز کی زندگی بھی اسی کٹھن کام میں گزری، مقبول عامر بھی اس کوشش میں تمام ہوئے۔ حکومتوں کو علم ہونا چاہیے کہ لکھاری اپنے قلم کی حرمت سے مجبور ہوکر مدت سے یہ کام کر ہی رہا ہے۔ اب حکومتوں کوسامنے آنا ہے۔ اب ریاست کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

یاد رکھیں۔ مشعال شہید کے سانحے پر وزیر اعظم اور انکی صاحبزادی مریم نواز کا مذمتی بیان اگر اڑتالیس گھنٹے کے بعد آئے گا تو بیانیہ تبدیل نہیں ہو گا۔ اگر حکومیتیں اب بھی ووٹوں اور نشستوں کے چکر میں رہیں گی تو بیانیہ نہیں بدلے گا۔ اگر اب بھی مصلحتیں پیش نظر رہیں گی تو بیانیہ نہیں بدلے گا۔ اگر اب بھی سمجھوتے کی سیاست ہو گی تو بیانیہ نہیں بدلے گا۔ بیانہ صرف بیانات سے نہیں بدلے گا، بیانہ صرف چیخ و پکار سے نہیں بدلے گا اور یقین مانیں بیانیہ چودھری نثار سے نہیں بدلے گا۔ لیڈر عوام کو راہ دکھانے کے لیئے ہوتے ہیں، راستا بتانے کے لئے ہوتے ہیں۔ لیڈرجاہل ہجوم کی ایما پر نہیں چلتے۔ مقبولیت پسند فیصلوں کے سوا اب کچھ درکار ہے۔

اب پر عزم فیصلے کرنے پڑیں گے۔ حوصلے کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ ہمت دکھانی پرے گی۔ اس ملک کے بیس کروڑ عوام دہشت گردوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑے جا سکتے۔ اس ملک کے بچے اب مزید ذبح نہیں کئے جا سکتے۔ اب ہم ماتم کے منظر دیکھ کر تھک چکے ہیں۔ غم و الم کے حرف لکھ کر تھک چکے ہیں۔ لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں۔ ہمیں اپنے قائدین سے بہتر مستقبل کی نوید درکار ہے۔ ہمیں مذہب کی درست تشریح درکار ہے۔ ہمیں رحمت العالمین کی شفقت درکار ہے۔ ہمیں بھائی چارے اور محبت کا سبق پڑھنا ہے۔ ہمیں انسان دوستی کی روایت کو زندہ کرنا ہے۔ ہمیں احترام انسانیت پر یقین رکھنا ہے۔ ہمیں ریاست کے ہر شعبے کے تعاون سے بیانیے کو تبدیل کرنا ہے۔ ماضی کی عبرت ناک غلطیوں کی سزا اگلی نسلوں کو نہیں دینی۔ ہم نے آنسوؤں سے ماضی کو نہیں مٹانا، ہم نے حوصلے سے مستقبل کو دیکھنا ہے۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔ یہی وقت کی پکار ہے۔ یہی مستقبل کا راستہ ہے۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar