بھٹو صاحب، امین احسن اصلاحی اور حسن عسکری


اس زمانے میں جب ذوالفقار علی بھٹو کے مخالفین یہ طے کر بیٹھے تھے کہ ان سے بہر صورت نجات حاصل کرنی ہے، خواہ اس کا نتیجہ ملک کے لیے کتنا ہی بھیانک کیوں نہ ہو، اس وقت معروف عالم دین مولانا امین احسن اصلاحی اور اردو ادب کے ممتاز نقاد محمد حسن عسکری (جن کا اس وقت مذہب کی طرف بہت زیادہ رجحان تھا)، بالکل دوسرے رخ پر سوچ رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ بھٹو مخالف مہم کے نتائج ملک کے حق میں نہیں ہوں گے، وہ صورت حال کا درست تجزیہ ایک تو اس لیے کر پائے کہ بصیرت ان کے پاس تھی، دوسرے بھٹو کے مخالفین کی طرح انھوں نے آنکھوں پر نفرت کے کھوپے نہیں چڑھا رکھے تھے ، تیسرے انھوں نے ضیاالحق سے وزارتوں میں حصہ مانگنا تھا نہ ہی وزارت عظمیٰ کے وہ طلبگار تھے ، نہ ہی ولی خان جیسے قوم پرستوں اور اصغر خان جیسے بزعم خود نابغوں کی طرح ان کا خیال تھا کہ بس بھٹو سے جان چھوٹ جائے تو پھر راوی چین ہی چین لکھے گا۔

امین احسن اصلاحی اور محمد حسن عسکری۔۔۔ دونوں عالم فاضل۔۔۔۔ دونوں کو بھٹو سے کچھ لینا دینا تھا نہ ہی کاروبار سیاست سے۔ صرف قوم کا درد ان کے سینے میں تھا، اس لیے وہ بھٹوکے خلاف ہونے والی انتقامی کارروائی پر مضطرب تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے اگلے دن جاوید احمد غامدی اپنے استاد گرامی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انھیں افسردہ پایا۔ شاگرد عزیز
سے امین احسن اصلاحی نے کہا تو صرف اتنا کہ ’’مجھے بھٹو صاحب سے کیا ہمدردی ہو سکتی ہے لیکن جن احمقوں نے ایک قومی رہنما کو ختم کر دینے کا یہ طریقہ اختیار کیا ہے، وہ نہیں جانتے کہ اس طرح انھوں نے قومی سیاست میں مستقل عناد کی بنیاد رکھ دی ہے۔‘‘

محمد حسن عسکری کو بھٹو کی گرفتاری نے ہِلا کر رکھ دیا تھا۔ ان دنوں معروف نقاد اور عسکری کے دوست ڈاکٹر آفتاب احمد کی ان سے ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر آفتاب اپنی کتاب “بنام صحبت نازک خیالاں” میں اس ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ میں نے عسکری کو اس قدر پژمردہ اور گرفتہ دِل اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔سوائے بھٹو کے انھوں نے اور کوئی بات نہیں کی ۔مجھ سے پوچھا کہ کیا بھٹو بچ جائیں گے؟ میں نے کہا مجھے تو موجودہ حالات میں یہ مشکل نظر آتا ہے۔ مگر اس کا انحصار اس پر بھی ہے کہ لوگ کیا کرتے ہیں۔ انھوں نے فوراً مجھ سے سوال کیا کہ آپ کے خیال میں لوگ بھٹو کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور اجمل صاحب (ممتاز ماہر نفسیات اور عسکری کے دوست) کا کیا خیال ہے؟ میں نے جواب دیا کہ آخر بھٹو کے خلاف ملک میں کچھ مواد تو موجود تھا اور ساتھ ہی بتا دیا کہ اجمل کہہ رہے تھے کہ لوگوں میں کچھ (ambivalent)  متضاد جذبات پائے جاتے ہیں ۔ عسکری کو یہ بات کچھ اچھی نہیں لگی۔ چنانچہ انھوں نے کسی قدر جھنجھلا کر کہا کہ آپ اور اجمل صاحب جس قسم کے لوگوں سے ملتے ہیں ان میں متضاد جذبات پائے جاتے ہوں گے۔ میں تو ’گولیمار‘کے رہنے والوں سے ملتا ہوں۔ ان کے ہاں کوئی ایسے متضاد جذبات نہیں ہیں، وہ تو سب بھٹو کے ساتھ ہیں۔ عسکری نے ایک ترنگ میں آکر یہ کہہ تو دیا مگر میں ملاقات کے دوران سارا وقت یہ محسوس کرتا رہا کہ ان پر ایک گھٹا ٹوپ مایوسی کا عالم طاری ہے اور دل پرجیسے ایک بوجھ سا ہے۔ اس ملاقات کے دو مہینے بعد اچانک ان کا انتقال ہو گیا۔ ‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).