کیا مشال خان سانحے پر ردعمل سے کچھ بدل سکے گا؟


محترم ہدایت اللہ موکل صاحب سے قیام لاہور کے دوران ماڈل ٹاون پارک میں صبح سیر کے دوران بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا۔ انہوں نے نہ صرف قیام پاکستان کی جدوجہد میں بطور طالب علم حصہ لیا تھا بلکہ وہ قیام پاکستان اور اس کے فوراً بعد بعض واقعات کے چشم دید گواہ بھی تھے۔

انہوں نے بتایا کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد بعض مذہبی انتہا پسندوں نے لاہور کے ٹمپل روڈ پر عورتوں کی چوٹیاں کاٹ دیں کہ اب پاکستان بن گیا ہے۔ اس مذہبی اسلامی سیاست میں فحاشی اور بے حیائی نہیں چلے گی۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے گیارہ اگست 1947کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے پاکستان کی ریاست کے ہر شہری کے لئے برابر کے حقوق کے بارے میں جو کچھ فرمایا میں اسے اصلی قرارداد پاکستان یعنی Objectives Resolutionکا نام دیتا ہوں۔

قائد اعظم محمد علی جناح کی اس اہم تقریر کے ساتھ جو نوکر شاہی نے کرنے کی کوشش کی اب وہ تاریخ کے ہر طالب علم کو معلوم ہے۔

مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ مسلم لیگ کے رہنماوں نے جناح کی وفات کے بعد اپنا فکری بانجھ پن چھپانے کے لئے مذہبی علما کا سہارا لیا اور ان کو اپنا رہنا تسلیم کر لیا۔ مذہبی انتہا پسند سوچ روز بروز غالب آتی رہی۔ کیونکہ امریکی سامراج بھی یہی چاہتا تھا اس لئے لیاقت علی خان سے لیکر ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیا الحق تک یہ سفر مکمل ہوگیا اور آج ہم لاکھ کہیں کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست نہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ آج کے پاکستان کی سیاست مذہبی انتہا پسند فکر کی غلام ہے۔ آپ کسی ایک حکمران کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے یہ ایک مسلسل عمل ہے جس میں ہر حکمران نے اپنی فکر اور بساط کے مطابق حصہ ڈالا۔

 پاکستانی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ انفرادی اور اجتماعی قتل بھی ہوئے۔ میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔

یہاں پر میں اپنے دوست اور ساتھی نعمت احمر کے قتل کا ذکر ضرور کروں گا۔ ایک سکول کے دینیات کے استاد اپنا تبادلہ کرانا چاہتے تھے مگر یہ تب ہی ممکن تھا کہ نعمت احمر کو راستے سے ہٹایا جائے لہذا اس نے لڑکوں کو بھڑکایا اور ایک لڑکے نے نعمت احمر کو دن ڈھارے پیپلز لالونی فیصل آباد میں سرکاری دفتر میں لوگوں کی موجودگی میں قتل کر دیا۔ اس کا غصہ اس پر بھی ٹھنڈا نہیں ہوا اس نے اس کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئے۔ میں نے جب پیپلز کالونی کے ایس ایچ او کو اس واقعہ کی تفصیل معلوم کرنے کے لئے فون کیا تو اس نے کہا ’مبارک ہو ایک اور علم الدین شہید پیدا ہو گیا ہے‘۔ پھر یہ سلسلہ چلتا گیا اور آخر پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو اس کے گارڈ نے قتل کر دیا۔ پیپلز پارٹی اسی دن پنجاب کی سیاست کی بازی ہار گئی۔ گو سلمان تاثیر کے قاتل کو پھانسی دے دی گئی مگر ممتاز قادری کا اسلام آباد میں مزار ہماری اجتماعی اور سیاسی فکر کی عکاسی کرتا ہے۔

صوبہ پختون خوا کی ولی خان یونیورسٹی میں مشال خان کا قتل قابل مذمت ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ اس کی مذمت ہر سطح پر ہوئی اور یہاں تک کہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے اس پر سانحہ پر قرارداد مذمت بھی منظور کی۔ بعض دانشور اس کو فکری تبدیلی کا نام دیتے ہیں۔

مگر میں ان سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ پہلے کی طرح چند ہفتوں بعد ہم یہ واقعہ دوسرے ایسے انسانیت سوز، سنگین واقعات کی طرح بھول جائیں گے۔

سول سوسائٹی اور سیاست دانوں نے اس واقعہ کی بھر پورمذمت کی ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی اس کا نوٹس لے لیا ہے۔ مگر جس بات پر بہت غور کرنے کی ضرورت ہے وہ یونیورسٹی انتظامیہ اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کا کردار ہے۔ مجھے عوامی نیشنل پارٹی سے کوئی امید اور توقع نہیں کیونکہ اس کے صدر اجمل خٹک نے اسمبلی میں ’غیرت‘ کے نام پر قتل کو جائز قرار دیا تھا اور غلام محمد بلور اہانت مذہب کے الزام میں قتل کرنے والے کو لاکھوں ڈالر انعام دینے کو تیار ہے اور پھر اس کا سینیٹرشاہی سید شرابی کو قتل کرنا جائز قرار دیتا ہے۔

مذہبی کلین شیو دانشور آّج روشن خیال لوگوں اور حکومت وقت کو عوام کے غصہ اور اشتعال سے ڈرا رہے ہیں۔ ہمارے بہت ہی عزیز اور بزرگ دوست اور سینیر دانشور جناب مسعود اشعر نے لکھا ہے کہ اسلام آباد میں ہونے والے تین روزہ ادبی میلہ میں ہر روز مشال خان کے بہیمانہ قتل کا ذکر ہوتا رہا مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ دانشوروں نے کوئی قرارداد مذمت بھی پیش کی کہ نہیں؟

ایک اور خطرناک اور پریشان کن بات انہوں نے اپنے کالم میں لکھی کہ کشور ناہید کی نظم پر لوگو ں نے احتجاج کیا اور تحریک پاکستان کے سپاہی اور بزرگ دانشور، سینیر صحافی سید احمد کے خیالات سننے کے بعد حاضرین میں سے کچھ لوگوں نے ان پر نہ صرف تنقید اور احتجاج کیا بلکہ ان کو ملک چھوڑ کر جا نے کے لئے بھی کہا۔

میں آخر میں صرف دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں ایک کہ کیا ابھی تک حلقہ ارباب ذوق اور ایسی ہی دوسری رائٹرز کی کسی انجمن نے مشال کے قتل پر قرار داد مذمت پاس کی ہے ؟ کیا وکلا کی تنظیموں نے بھی کوئی مذمتی بیان جاری کیا ہے؟

دوسری گزارش یہ ہے کہ جو دانشور اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی بجائے لوگوں کو ملک چھوڑنے کا کہتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جب بنگالی پاکستان چھوڑ کر گئے تھے تو اس کا انجام کیا ہوا تھا۔

مشال کان کے قتل پر بہت احتجاج ہوا۔ اچھی بات ہے، ہونا بھی چاہے مگر جب تک حقیقی تضاد دور نہیں کیا جاتا، مسئلہ حل نہیں ہوگا اور پاکستان ایک فلاحی جمہوری ریاست نہیں بن سکے گا۔

کیا اب بلوچ اور پشتون طلبا پنجاب یونیورسٹی میں اپنا یوم ثقافت منا سکیں گے؟

بد قسمتی سے آج پاکستان میں صرف نیشنلسٹ اور چند کمیونسٹ (اگر ہیں) ہی سیکولر اور روشن خیال ہیں ورنہ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).