ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان کا سرینڈر اور ان کے متاثرین


احسان اللہ احسان نے سرینڈر کر دیا ہے۔ اس وقت وہ اداروں کی تحویل میں ہیں۔ آئی ایس پی آر نے اس کا اعلان کیا ہے۔ احسان اللہ احسان کا آج کل تعلق جماعت الاحرار کے ساتھ تھا۔ عمر خالد خراسانی جماعت الاحرار کے امیر ہیں۔ یہ جماعت اپنے نام کے ساتھ ٹی ٹی پی کی دم بھی لگاتی ہے۔ احسان اللہ احسان کا اصل نام سجاد مہمند ہے۔ ان کا تعلق مہمند ایجنسی سے ہے یہ بہت پہلے مقامی رپوٹر کے طور پر کام بھی کرتے رہے ہیں۔

یہ شروع سے عمر خالد خراسانی کے ساتھ ہی رہے ہیں۔ پہلے یہ عمر خالد کے ترجمان ہوا کرتے تھے۔ بہت پہلے یہ مکرم خراسانی کے نام سے بھی اپنا تعارف کرایا کرتے تھے۔ ٹی ٹی پی کے تقسیم ہونے سے پہلے یہ اس کے ترجمان بھی رہے۔ اسی دورمیں انہوں نے اپنا نام احسان اللہ احسان بتانا شروع کیا۔ حکیم اللہ محسود نے انہیں طالبان کی ترجمانی سے ہٹا دیا تھا۔ ان کو ہٹائے جانے کا قصہ بھی دلچسپ ہے۔ فوج نے جب مہمند ایجنسی میں آپریشن کیا تو یہاں سے شدت پسندوں نے دوڑ لگائی اور سرحد پار چلے گئے۔

عادتیں وہی فسادی تھیں تو وہاں جا کر افغان طالبان سے پھڈا ڈال لیا۔ احسان اللہ احسان نے افغان طالبان کو زیادہ ہی ایزی لیا اور بیان جاری کر دیا کہ اگر یہ باز نہ آئے تو ان کو سبق وغیرہ سکھا دیں گے۔ حکیم اللہ محسود کو سمجھ آ گئی کہ احسان اللہ احسان کی بہادری ٹی ٹی پی کا مستقل انتظام کرا سکتی ہے۔ انہیں فوری ترجمان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ احسان اللہ احسان نے اس برطرفی کو چیلنج کر دیا اور شرعی کورٹ بنانے کا مطالبہ کر دیا۔ پیار کے لیے، ’سوری شہرت کیمرے خبر کے لیے کچھ بھی کرے گا‘ قسم کا کردار ہیں۔ زیادہ ٹینشن نہ لیں ایزی ہو جائیں اب یہ صاحب پھڑے جا چکے ہیں۔

صرف احسان اللہ احسان ہی نہیں اور بھی ترجمان حضرات پکڑے جا چکے ہیں۔ مولوی عمر نام کے بھی ایک ترجمان ہوتے تھے ٹی ٹی پی کے وہ بھی قابو کر لیے گئے تھے۔ ان کے بعد سوات طالبان کے مسلم خان بھی آپریشن کے شروع میں ہی ہتھے چڑھ گئے تھے۔ یہ شدت پسندوں کی ترجمان قسم کی مخلوق بہت اچھی کیس سٹڈی ہیں ماہرین نفسیات کے لیے۔ ان کی شروعات یوں ہوتی ہیں کہ یہ ہر کسی کو دھمکاتے ہیں اور پھر پکڑے جانے والوں میں بھی فسٹ آ جاتے ہیں۔

احسان اللہ احسان کے تحویل میں آنے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ انہوں نے سرینڈر کیا ہے۔ اس سرینڈر کی وجوہات جاننی بہت اہم ہیں۔ اصل معلومات تو ظاہر ہے اداروں کے پاس ہی ہوں گی۔ بہت کچھ ایسا بھی ہے جو سامنے کی باتیں ہیں لیکن ان پر غور نہیں کیا جاتا۔ ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں اور اس کی لڑاکا فورس میں زیادہ تر کا تعلق فاٹا سے ہے۔ ان کی اکثریت اب پاکستان سے بھاگ کر افغانستان میں بیٹھی ہے۔

افغانستان جانے والوں میں سے وہ شدت پسند زیادہ مسئلہ بن گئے ہیں جن کا تعلق ایسے قبائل سے ہے جو سرحد کے دونوں جانب آباد ہیں۔ مثال کے طور پر مہمند، یہ دونوں سائیڈ پر ہیں۔ مہمند شدت پسند نسبتاً بہترحال میں ہیں کہ اپنے ہی قبیلے کے پاس گئے ہیں۔ مہمند ایجنسی کے شدت پسندوں کی نمائندہ شدت پسند تنظیم جماعت الاحرار ہے۔ یہی تنظیم پاکستان میں بڑھ چڑھ کر کارروائیاں بھی کر رہی ہے۔ ان مہمند ایجنسی کے شدت پسندوں کا موازنہ آپ وزیرستان کے محسود لڑاکوں سے کر لیں۔ محسود جب پاکستان میں تھے اداروں کے لیے سب سے بڑا درد سر یہی تھے۔ اب جب محسود شدت پسند سرحد پار چلے گئے ہیں تو ان کا اثر بہت ہی کم رہ گیا ہے۔ محسودوں کی حملہ کرنے صلاحیت کو ٹھیک ٹھاک نقصان پہنچا ہے۔ محسود افغانستان میں کسی اچھے حال میں نہیں رہ رہے۔ ان کے افغانستان میں میزبانوں کا تعلق بھی محسود قبیلے سے نہیں ہے۔ افغانستان میں محسود افغان طالبان کے ڈھیلے ڈھالے اتحادی بنے ہوئے تھے۔ افغانستان میں ان کی حالت زار بری ہی تھی۔ ان کا گروپ ڈرپیشن ہی تھا کہ انہوں نے دوبارہ ملا فضل اللہ سے اتحاد کر لیا۔ ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اکٹھے ہوں گے کارروائیاں کریں گے شاید ہمیں کوئی راستہ ملے ہم صلح کر کے واپس آ سکیں۔

افغانستان میں رہنے والے شدت پسند جب پاکستان کے اندر آ کر کارروائیاں کرتے ہیں تو اپنے اپنے قبائلی تعلقات کو ہی استعمال کرتے ہیں۔ قبائل کو ڈیل کرنے کے لیے انگریز اجتماعی ذمہ داری کا نظام لائے تھے۔ یہ نظام صرف انگریز سرکار کا ہی مائنڈ سیٹ نہیں ظاہر کرتا قبائل کا بھی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر قبائلی شدت پسند کسی کارروائی کے لیے نکلتا تھا تو وہ اپنے قبیلے کے وسائل یوں استعمال کرتا تھا کہ اگر وہ مہمند ہے تو فروٹ اور سبزی کی منڈیاں چائے کے ہوٹلوں میں قیام کرتا ہوا کارروائی کے لیے اپنے مطلوبہ مقام تک پہنچتا تھا۔ مہمند زیادہ تر منڈیوں میں کاروبار کرتے ہیں چائے خانے ان کے ہوتے ہیں۔ جب فروٹ منڈیوں میں بم پھٹتے تھے یا چائے خانوں میں کسی کو گولی کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ یا یہ کاروبار کرنے والوں کو بھتے کی پرچیاں آتی تھیں تو اس کی وجہ صاف ہوتی تھی کہ رزق حلال کمانے والے وہ قبائلی شدت پسندوں کی دراصل خاموش مزاحمت کر رہے ہوتے تھے۔

شدت پسندوں کی اپنی بری حرکتوں نے قبائل کا اندرونی تعاون کا نظام تباہ کیا ہے۔ ان کے باہمی اعتماد کو نقصان پہنچایا ہے۔ شدت پسند تنہا ہوئے ہیں ان کی سب سے زیادہ مزاحمت ان کے اپنے قبیلوں سے تعلق رکھنے والے ان کے اپنوں نے ہی کی ہے۔ یہ مزاحمت کرنے والے اور خاموشی سے قربانیاں دینے والے ہمارے ہیرو ہیں جن کی خدمات کا اعتراف بھی ہم نہیں کر سکیں گے کہ یہ سب کہانیاں سامنے آنی ہی نہیں ہیں۔

سرحد پار چلے جانے والے شدت پسند اپنے قبائل سے اگر پوری طرح کٹ نہیں بھی گئے تو بھی اپنے گھروں اور گاؤں سے ضرور کٹ گئے ہیں۔ وہ سرحد پارمزے نہیں کر رہے بلکہ زیادہ تر فقیر حال ہی رہتے ہیں ان کی قیادت کو چھوڑ کر۔ مقامی آبادی زیادہ تر ان سے نفرت کرتی ہے۔ وہ دشوار گزار علاقوں میں رہتے ہیں۔ مفروروں کی زندگی گزارتے ہیں اور زندگی بھی ایسی جس کا کوئی بھروسہ نہیں کہ کب ختم ہو جائے اور وہ کسی بم گولی کا نشانہ بن جائیں۔ ان حالات میں کوئی بھی انسان ڈپریشن کا ہی شکار ہو گا۔

جماعت الاحرار سے متعلق شدت پسند سرحد پار اپنے ہی قبائل کے مہمندوں کے پاس نسبتاً آرام سے رہتے ہیں۔ اسی لیے یہی سب سے زیادہ پاکستان کے اندر آ کر کارروائیاں بھی کرتے ہیں۔ پاکستانی اداروں نے نے وقت کے ساتھ بہت سیکھا ہے۔ اب بارڈر مینیجمنٹ سمیت ایسے اقدامات کرنے شروع کیے ہیں کہ شدت پسندوں کے لیے سروائول مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ سرحد کے پاس ان کے ٹھکانوں کو حال ہی میں نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔ پریشر بڑھ کر اعصاب شکن ہوا ہے تو احسان اللہ احسان جیسوں نے سرینڈر کرنا شروع کر دیا ہے۔

کتنے بم دھماکوں کی ذمہ داری اس ایک شخص نے قبول کی تھی۔ اپنی طبعیت کی وجہ سے جب اپنی تنظیم میں مسائل پیدا ہوئے اور فیصلہ کن قبائلی پریشر آیا اور اپنی جان کا مسئلہ ہوا تو آرام سے عقل کو ہاتھ مار لیا۔ خوف کا کاروبار کرنے والے یہ لوگ بس ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جب خود خدشات کا شکار ہوں تو کھڑے نہیں رہ پاتے۔ جنگ ختم کرنے کے لیے مشکل اور تکلیف دہ ٖفیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ یہ فیصلے کرنے والے اپنا کام جانتے ہوں گے، ان کو صورتحال کا درست اندازہ ہو گا، ان کے پاس اپنے فیصلوں کی اپنی ٹھوس وجوہات بھی ہوں گی۔ پر اپنی جان بچا کر سرینڈر کرنے والوں کو ایک بار ان سے بھی تو ملایا جائے جن کے اپنے ان کے شوق فساد کی بھینٹ چڑھے۔ تاکہ باقی زندگی یہ بھی سوچتے اور بتاتے گزاریں کہ ان کی سوچ نے کتنے ہی انسانوں پر، انہی کے ہم وطنوں پر کیا قہر ڈھائے ہیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi