مشال نے تو سب کو زبان دے دی


1757ء میں بابا بلھے شاہ کے انتقال پر پیش امام نے نہ صرف ان کا جنازہ پڑھانے سے انکار رکردیا تھا بلکہ ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ جس کے بعد بابا بلھے شاہ کے دوستوں نے انہیں قصور شہر سے باہر لے جاکر دفن کردیا ۔ وقت نے اڑھائی صدی کے بعد 13 اپریل 2017ء کو صوابی کے گاﺅں زیدا میںخود کو دہرایا جب ایک مقامی مولوی نے23 سالہ نوجوان مشال خان کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا۔بابا بلھے شاہ کے جنازے میں بھی چند لوگ تھے جبکہ مشال خان کا جنازہ بھی اس کے چند دوستوں اور اہل محلہ نے مل کر اٹھایا۔ وقت گزر گیا، صدیاں بیت گئیں مگر ہم آج بھی وہیں بلھے شاہ کے زمانے میں خدا پر قبضہ جماکر انسانیت کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ جس مولوی نے مشال خان کو گستاخ کا لقب دیکر یہودیوں کا ایجنٹ اور کافر قرار دیا ہوگا اورمشال کی نمازجنازہ پڑھانا گناہ عظیم سمجھا ہوگا اس نے زندگی میں کبھی بھی ’کافروں‘ کی کسی ایجاد کردہ چیز سے فائدہ حاصل نہیں کیا ہوگا۔ اس نے کبھی بھی امریکی چارلس فرانسس کے ایجاد کردہ ٹیلی ویژن پر گھنٹوں بیٹھ کر رمضان ٹرانسمیشن کا لطف نہیں اٹھایا ہوگا، کبھی بھی الیگزینڈر گراہم بیل کے بنائے ہوئے لاﺅڈ سپیکر کو واعظ کیلئے استعمال نہیں کیا ہوگا۔ حج کیلئے بھی رائٹ برادرز کے ایجاد کردہ ہوائی جہاز کے بجائے اونٹ پر سوار ہوکر مکران کے پہاڑوں سے سعودی عرب پہنچا ہوگا۔ مجھے امید ہے کہ اس نے ہیٹ سٹروک کے دنوں میں بھی ولس کیریئر کے ایجاد کردہ ایئرکنڈیشن کے بجائے اپنے ہی ملک کے مسلمان بھائیوں کے تیار کردہ پاک فین سے ہی اپنا پسینہ سکھایا ہوگا اور تو اور انہوں نے کبھی بھی پیپسی کا ذائقہ نہیں چکھا ہوگا اور ایک یہودی کے مشروبات کی بجائے حلال مکہ کولا سے افطار کیا ہوگا۔

یہ کون لوگ ہوتے ہیں ان کے اندر وہ کونسی چیز ہے جو ان کو یہ حاکمانہ اختیار عطا کرتی ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرلیں کہ جنید جمشید اسی’عمل‘ پر معافی مانگ لے تووہ اللہ اور بارگاہ رسالت میں قابل قبول ہے جبکہ کوئی اور عام شخص اگر شق کی وجہ سے بھی اسی عمل کیلئے مورد الزام ہو تووہ بغیر تحقیق و تفتیش کے ناقابل معافی اور واجب القتل ہے۔

ابھی مشال کے قبر کی مٹی بھی نہیں سوکھی تھی کہ منگل کے روز تھر پارکر کے علاقے مٹھی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان سماجی کارکن اور وکیل دلیپ دوشی پربھی اسی قسم کی توہین کا الزام عائد کر کے ایک اور مشال خان کو سبق سکھانے کی تیاری کی جا رہی تھی۔ اس پر کیس دائر کرنے کیلئے ایک مقامی صحافی اور کچھ افراد تھانے بھی پہنچ گئے مگر بھلا ہوں سوشل میڈیا کا جس کی وجہ سے یہ خبرعام ہو گئی اورسماجی رہنماﺅں نے فوراً مداخلت کر کے معاملے کو برادری سطح پر حل کرا لیا جبکہ مقامی پولیس افسرنے بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا جنہوں نے معاملے کو بھانپ کر فوری ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کیا اور مدعین کومذاکرات کے ذریعے معاملہ حل کرنے پر آمادہ کیا۔ایک لمحے کو سوچئے اگر مشال خان کا واقعہ رونما نہ ہوا ہوتا تو دلیپ دوشی کے ساتھ اس وقت کیا ہوچکا ہوتا۔ مشال تو واقعی ایک مشعل بن گیا جس کے بعد عوامی سطح پر شعور بیدار ہوا ۔ مشعل کی کرن مٹھی تک پہنچ گئی اور پولیس نے وہاںاپنا کردار ادا کیا ۔لوگ سامنے آئے اور اس معاملے کو مقامی سطح پر حل کرادیا۔ مشال کی موت کے بعد ان کی مشعل ابھی بھی جل رہی ہے ۔ پہلی دفعہ لوگ کھل کر توہین رسالت کے قانون پر بات کررہے ہیں۔جس موضوع پر لوگ بات کرتے ہوئے کتراتے تھے ۔جس قانون میں ترمیم کی بات کرنے پر ایک صوبے کے گورنر کو سرکاری گارڈ نے قتل کردیا۔اب اسی قانون کے غلط استعمال اور ترمیم کیلئے پاکستان کی قومی اسمبلی، سینٹ ، میڈیااور عوامی اجتماعات میں بات کی جارہی ہے۔ حیران کن طور پر وہ صحافی اور اینکر پرسنز جو اپنے کالمز میں اور ٹاک شوز میں دوسروں پر فتوے لگانے میں پیش پیش رہے ہیں ان کو بھی مشال راہ راست پر لے آیا اور آج وہ اپنے پروگرامز اور کالمز میں بھی اس قانون کے غلط استعمال کی بات کر رہے ہیں۔

جس ملک کی 97 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہو، جس ملک میں توہین رسالت کرنے پر سزا سر تن سے جدا ہو، ایسے ملک میں ایک پاگل اور ذہنی مریض کے علاوہ کوئی بھی ذی الشعور عقل اس عمل کو کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔تو پھر سوچنے کی بات ہے کہ بہاالدین زکریا یونیورسٹی میں انگریزی ادب کاایک پروفیسر یا پھر بیرون ملک سے تعلیم یافتہ ایک 23 سالہ ذہین طالب علم آخر کیونکر اس طرح اپنی زندگی کو سلاخوں کے پیچھے گزارنے یا پھر بھیڑ کے ہاتھوں سسک سسک کر مرنے کو ترجیح دیں گے۔ یہ موضوع ہی خوف کی علامت ہے۔ ایک قانون کے ہوتے ہوئے کوئی کیسے قانون توڑ کر خود کو موت کی آغوش میں پھینک دے گا اس پر سوچنا چاہیے۔

جس دن مردان یونیورسٹی میں مشال خان کو قتل کیا جارہا تھا ٹھیک اسی دن یعنی 13 اپریل 2017ء کو امریکی ریاست ڈلاس میں یونیورسٹی آف ٹیکساس میں ایک شخص نے کلام پاک کے اوراق کی شدید توہین کی۔اسی طرح ڈچ فلم میکرنے توہین آمیز فلم بناڈالی، ناروے کے کارٹونسٹ نے خاکے بنائے ۔مگر کیا قانون یہ کہتا ہے کہ جس کو آپ اپنے سامنے دیکھیں اور جو آپ کی پہنچ میں ہو کم سے کم اس کو ہی تو ختم کردیں باقی کیونکہ ہم سے دور ہیں اس لیے ان سے حساب کتاب آخرت میں ہوگا چلو یہاں والوں کا تو حساب چکتا کردیں۔اور اس کے بعد اب قاتلوں کا یہ حال ہے کہ مشال کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کرنے کو کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ ارے بھائی جس طرح قتل کے بعد بڑے بڑے نعرے لگائے اور تقریریں کی گئیں۔ حرمت پر مر مٹنے کی قسمیں کھائیں ۔اب ادھرادھر الزامات کو تھوپنے کے بجائے اسی جذبے سے اس قتل کو بھی قبول کرو۔’نیک مقصد‘ کیلئے غلط بیانی تو نہ کرو۔ورنہ محبت میں جان کی بازی لگانے کی جھوٹی قسمیں کھانا اور سچ سے مکر جانا کیا توہین نہیں ہے؟۔

جس ریاست میں وزیرداخلہ اور دیگر فیصلہ ساز ادارے سرکاری فرائض کے دوران رو رو کر میڈیا کے سامنے یہ بتائیں کہ فیس بک پر توہین آمیز پوسٹس پڑھ کر ہم کئی راتوں سے سو نہیں پائے ہیں۔ 31 سالوں سے بنے ہوئے ایک قانون کی موجودگی کے باوجود یہ بتایا جائے کہ ہم گستاخوں کوسبق سکھائیں گے اور پھرجب مشال خان کا قتل ہوجائے تو سامنے آکر ایک لفظ بھی نہ بولیں تو پھر اس طرح کے پیدا کردہ’ ایموشنل‘ ماحول میں اس طرح کی مشعلیں بجھانا ناگزیر ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).