نوسالہ بھارتی لڑکی کا مودی پر مقدمہ


ہمارے ہاں جدھر دیکھیں آپ کو گفتار کے غازیوں کی بہتات نظرآئے گی لیکن اگر کردار کی بات کی جائے تو خال خال ہی کوئی مرد’مجاہد‘ نظر آئے گا ۔ مسائل کے حل نہ ہونے کا رونا روتے ہیں لیکن وہ حل کیسے ہوں گے ان کے طریقوں سے یا تو ناواقف ہیں اور جو واقف ہیں وہ ان طریقوں کو اپناتے نہیں، سوشل میڈیا پر ایک ’خلقت‘ ہے جو تمام مسائل کا ذمہ دار حکمرانوں کو سمجھتی ہے اور ان کی ایسی کی تیسی پھیرنے میں ایک لمحہ نہیں لگاتی جبکہ کرنے کا جو کام ہے اس سے نہ صرف پہلو تہی کرتی ہے بلکہ شرمناک ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے’ جہاں بیٹھے‘ ہیں وہاں سے ہلنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ صفائی نصف ایمان ہے کی تلقین و تبلیغ کرنے والے اپنے گھروں کے باہر اور پارکوں میں ’گند‘ ڈالنے کے عمل کو معیوب نہیں سمجھتے، سگریٹ نوشی پبلک مقام پر ممنوع ہے لیکن پینے والے کو کوئی نہیں روکتا۔ اشیائے خورو نوش کے معیار اور اس کی تاریخ اجرا اور اختتام کے حوالے سے اس کے اجزائے ترکیبی لکھنا بنانے والی کمپنیوں کی ذمہ داری ہے لیکن ہم میں کتنے ہیں جو کوئی بھی چیز خریدتے وقت ان باتوں کا خیال رکھتے ہےں؟ ہم تو ادویات کی ایکسپائری ڈیٹ نہیں دیکھتے اور جب کوئی جان لیوا واقعہ رونما ہو جاتا ہے تب بھی ہم اسے قدرت کے کھاتے میں ڈال کر خودکو بری الذمہ اور مجرموں کو بچاتے ہیں۔

بھائی مہذب دنیا جس کے چرچے ہیں چہار سو وہ ایسے ہی مہذب اور دنیا کی امام نہیں بنی، انہوں نے اخلاقی معیار، جھوٹ، فریب، کرپشن جیسی برائیوں اور بنیادی قدروں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ ہی بے ایمانی اور کرپشن کے پیسوں سے بنائی کاروباری جگہ اور گھر کے ماتھے پر ’ہذا من فضل ربی‘ کے بورڈ آویزاں کئے۔ ہر آدمی ہر روز سرکاری و پرئیوائٹ اداروں کے اہلکاروں، سبزی فروش سے لے کر ڈیپارٹمنٹل سٹور تک کے افراد کے ہاتھوں تذلیل سہتا ہے لیکن نہ ہی احتجاج کرتا ہے اور نہ ہی ان کی شکایت کسی اتھارٹی کو کرتا ہے لیکن اپنے ساتھ ہوئے ناروا سلوک پر رونا ضرور روتا ہے۔

محتاط اندازوں کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں چالیس فیصد سے زائد افراد ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں، چالیس فیصد سے زائد غربت کی پست ترین حالتوں میں زندگی گزار رہے ہیں جبکہ صحت عامہ کے حوالے سے شاید ہی کوئی بندہ اپنے آپ کو مکمل تندرست سمجھتا ہے ، غذائیت کی کمی کے شکار بچوں میں کئی طرح کی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں ،اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں، غرض کون سا شعبہ ہے جس میں ہم کسی وکٹری سٹینڈ پر کھڑے ہیں ؟

کیا کبھی کسی نے ڈاکٹر کی غلط تشخیص،دوائی یا غلط علاج، پولیس کے ناروا رویے، سرکاری و پرائیویٹ اہلکاروں کے ’حسن سلوک‘ میڈیا کی غلط بیانی اور مولوی کی اشتعال انگیزی پر کسی متعلقہ فورم پر شکایت درج کرائی؟آئین پاکستان میں دیے گئے بنیادی حقوق کی حکومت سے مانگ کی۔ صاف پانی، تعلیم، صحت اور گھر صاف و شفاف ماحول ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن کیا کبھی کسی شہری نے اپنے حق کے لئے کسی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا؟ اگر ایسا نہیں کیا تو پھر رونا دھونا کیا معنی رکھتا ہے۔سنا ہے ہر مہذب ملک او معاشرے میں جھوٹے اور کرپٹ افراد کو جوتے مارے جاتے ہیں اس لئے ایسے معاشروں میں جھوٹ کی وبا اور کرپٹ افراد کی عزت نہیں ہے ہم ایسا اس لئے نہیں کر سکتے کہ ہم سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔

اپنے حق کے لئے لڑنے اور حاصل کرنے کے لئے جد جہد کرنی پڑتی ہے اپنے ہاں تو ایسی کوئی مثال نہیں ملتی مگر ہمارے ہمسایہ ملک کی ایک نو سالہ بچی نے جرات کا اظہار کرتے ہوئے اپنی حکومت کے خلاف عدالت کا دروزاہ کھٹکھٹایا ہے۔ تفصیل اس امر کی یوں ہے کہ ایک نوسالہ بھارتی لڑکی نے ملک میں ماحولیاتی تباہی کے خلاف کوئی اقدامات نہ کرنے پر وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت پر مقدمہ کر دیا ہے۔ یہ مقدمہ نیشنل گرین ٹربیونل کہلانے والی ایک خصوصی ملکی عدالت میں دائر کیا گیا ہے۔ نیوز ایجنسی ٹامسن روئٹرز فاونڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق اس نو سالہ بھارتی لڑکی نے، جس کانام ریدھیما پانڈے ہے، اپنی ایک قانونی درخواست میں مودی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہے۔روئٹرز کے مطابق یہ مقدمہ کوئی عام سا مقدمہ اس لیے نہیں ہے کہ اس واقعے میں ایک کم سن بھارتی بچی ملکی حکومت کو جس طرح عدالت میں لے گئی ہے، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتی باشندوں میں اپنے وطن میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور آلودگی کے حوالے سے پائی جانے والی تشویش مسلسل زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔نئی دہلی حکومت نے ماضی قریب میں ملک میں ماحولیاتی تنازعات سے متعلقہ مقدمات کی سماعت کے لیے جو خصوصی عدالت قائم کی تھی، وہ نیشنل گرین ٹربیونل یا این جی ٹی (NGT) کہلاتی ہے۔ اب اسی عدالت میں ریدھیما پانڈے اس شکایت کے ساتھ ایک مقدمے میں حکومت مخالف فریق بن گئی ہے کہ حکومت تحفظ ماحول سے متعلق ملکی قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ریدھیما پانڈے نے این جی ٹی میں جو درخواست دائر کی ہے، وہ 52 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ درخواست دہندہ شہری ایک ایسے بھارتی باشندے کے طور پر انصاف کی خواہش مند ہے، جسے باقی تمام بھارتی شہریوں کی طرح ماحولیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے شدید قسم کے خطرات لاحق ہیں۔اس مقدمے میں عدالت سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ حکومت کو حکم دے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نقصان دہ اثرات کو کم سے کم بناتے ہوئے تحفظ ماحول کے لیے سائنسی بنیادوں پر ایک موثر اور دیرپا حکمت عملی پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔عدالت نے اب اس مقدمے میں ملکی وزارت ماحولیات اور ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے مرکزی بورڈ سے دو ہفتوں کے اندر اندر تفصیلی جواب طلب کر لیا ہے۔بھارت کے بارے میں، جو دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دوسرا سب سے بڑا ملک ہے، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا کی سب سے گندی آب و ہوا والے دس آلودہ ترین شہروں میں سے چار بھارت میں ہیں۔ایک نئے مطالعے کے مطابق 2015ء میں پوری دنیا میں فضائی آلودگی کی وجہ سے جتنی بھی انسانی ہلاکتیں ہوئی تھیں، ان میں سے نصف سے زائد انسان صرف بھارت میں ہلاک ہوئے تھے۔

اب آئیے ہم اپنے ہاں دیکھتے ہیں کہ صرف لاہور شہر میں بغیر منصوبہ بندی کے بڑے بڑے پراجیکٹ شروع کر دیے جاتے ہیں جو ماحولیاتی آلودگی، گرمی میں تو اضافہ کرتے ہی ہیں لیکن شہریوں کی زندگیوں کو بھی اجیرن کر دیتے ہیں یہاں اپنے ذاتی مفاد (کسی کی زمین ، کسی کا کاروبار متعلقہ پراجیکٹ سے ڈسٹرب ہوتا ہے) تو کوئی رٹ دائر کر دیتا ہے لیکن مفاد عامہ کے لئے کسی نے کوئی رٹ دائر کی ہو اس کا مجھے علم نہیں۔گزشتہ تقریباً دس سال سے جمہوری حکمرانوں نے قوم سے بجلی فراہم کرنے کے جو دعوے کئے جنہیں وہ پورا نہیں کر سکے کیا ان کے ان دعوﺅں پر ہی کوئی شہری عدالت میں خالصتاً اس عوامی مسئلے کو لیکر چلا جاتا تو ہو سکتا ہے اس وقت تک یہ مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).