مشال کا خون اگر معاف کردیں تو کیا حرج ہے؟


مجھے نہیں پتہ کہ پانامہ کا فیصلہ کیا ہوگا۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جہاں بچوں کے ہوم ورک تک سے پنے پھاڑ کر بطور ثبوت جمع کروائے گئے ہوں، وہاں جج صاحبان کے قلم شقوں کی بھیڑ چال میں کس طرح کنی کترا کے چلے ہوں گے۔ یہ وہ فیصلہ ہی نہیں ہے جو ثبوت و شواہد دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ یہ وہ فیصلہ ہے جو حالات دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ ایک بات طے ہے کہ اس فیصلے نے ہیجان پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں کرنا۔ پیدا کرنے والے پیدا بھی یہی کرنا چاہتے ہیں۔ گھوڑا اتنا ہی چر سکتا ہے جتنا کہ رسی اجازت دے گی۔ اور ہم کوہلو کے بیل۔ وہیں پہنچیں گے جہاں سے چلے تھے۔ ہمیں ایک ہی الجھن تھی کہ ذرائع ابلاغ پر برپا ہونے والے نغموں کے شور میں ہماری فریاد ماری جارہی ہے۔ مشال کی لاش دبتی چلی جارہی ہے۔ کچھ دیر آرام کیا تو اب سوچتا ہوں کہ ہم درگزر سے کام کیوں نہیں لے لیتے؟

دیکھیے، عصمت اللہ معاویہ نے ہماری ماؤں کے لعل چھین لیے تھے۔ ہماری بہنوں کے سہاگ اجاڑدیے تھے۔ ہمارے بھائیوں کو اپاہج کردیا تھا۔ ہمارے اساتذہ کو اغوا کرکے کروڑوں کا تاوان وصول کیا تھا۔ پھر اسی پیسوں سے بارود خرید کرہمارے تعلیمی اداروں پر اچھالا تھا۔ پشاور کی مسجدوں میں سجدہ ریز بزرگوں کے سر کاٹ کر لے گیا تھا۔ مون مارکیٹ میں سودا سلف خریدنے والے ستر سے زائد معصوموں کو خون میں تڑپادیا تھا۔ نانگہ پربت کی چوٹیوں کو کوہ پیماؤں کے خون سے رنگ دیا تھا۔ شناختی کارڈ چیک کر کے شیعہ مکتب فکر کے مسافروں کو قتل کیا تھا۔ پشاور لاہور اور کراچی میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں میں عبادت گزاروں کو ذبح کیا تھا۔

آپ ہر سانحے کے ساتھ کہتے تھے ایسے لوگوں کو ٹانگ دینا چاہیے۔ چیر پھاڑ کر درندوں کے آگے ڈال دینا چاہیے۔ ہے نا؟ مگر کیا ہوا۔ عصمت اللہ معاویہ نے معافی مانگی، ہم نے قبول کرلی۔ کوئی فرق پڑا؟ نہیں تو۔ ہماری بھی گزر ہی رہی ہے اور وہ بھی سیکورٹی کے حصار میں گھومتے ہوئے کتنے بھلے لگتے ہیں۔

یاد کریں اے پی ایس کا سانحہ۔ وہی پشاور والا سانحہ جس میں ایک سو چونتیس نازک کلیوں کا خون نچوڑ کر پیا گیا تھا۔ سانحہ کیوں کہیے، قیامت کہیے قیامت۔ یاد ہے اس وقت کا کرب؟ سب چھوڑیں، آپ اپنی فیس بک ٹائم لائن پر الٹے قدموں چلنا شروع کردیں۔ سولہ دسمبر دو ہزار چودہ پر رک جایئے۔ اب سولہ دسمبر سے واپس سترہ اٹھارہ انیس دسمبر پر سے ہوتے ہوئے واپس آئیے۔ نیچے دیکھیے، یہاں آپ کو کہیں اپنا دل رکھا ملے گا، جو خون کے آنسو رورہا ہوگا۔ یہیں جگہ جگہ آپ کے بال پڑے ملیں گے جو صدمے میں آپ نے نوچے تھے۔ یہاں کچھ کترنیں ملیں گیں جو اپنا گریبان کھسوٹتے ہوئے ہوئے ادھڑ گئی تھیں۔ بڑھتے جائیے سوگ کا سماں دیکھتے جایئے۔ آپ کی دیوارِ گریہ سے کس قدر درد پھوٹ رہا ہے۔ کچھ دیر رک کر اپنی دیوار پر وہ نوشتے دیکھیے جو خود آپ نے درج کیے تھے۔ ان بچوں کا خون دیکھیے جن میں انگلیاں ڈبو ڈبو کر آپ نے مطالبے لکھے تھے۔ بپھرے ہوئے لہجے پر دھیان دیجیے۔ مشتعل اسلوب پہ غور کیجیے۔ لفظ کس طرح اپنی قبائیں کتر کر دھاڑ رہے ہیں۔ ماردو، ٹانگ دو، اڑادو، برباد کر دو، نام و نشان مٹا دو، نیست و نابود کر دو، سر عام بوٹی بوٹی کردو۔ یہ سب آپ ہی کا کہا اور لکھا ہے نا؟

واپس آجایئے۔ ایک سوال کا جواب دیجیے۔ آپ کو جب دکھ ملا تھا، کون اِترا اِترا کر ذمہ داریاں قبول کررہا تھا؟ آپ کی ماؤں کی آہ وفغاں پر کون مسکرارہا تھا؟ احسان اللہ احسان۔ جانتے ہیں احسان اللہ احسان کو؟ وہی جو ٹی ٹی پی کا ترجمان تھا۔ جو ٹی ٹی پی کے تار و پو بکھرنے کے بعد ٹی ٹی پی کے خراسانی دھڑے میں شامل ہوا تھا۔ وہی دھڑا جس نے کراچی ائِیرپورٹ پر آپ کو گھیر کر مارا تھا۔ پشاور میں تین بار جس نے اسکول آنے جانے والے معصوم بچوں کی وینوں پر حملے کیے تھے۔ جس نے کوئٹہ کچہری میں پورے شہر کے علم کو یکجا کر کرکے بموں سے اڑایا تھا۔ سیہون شریف میں رقص کرتی زخمی روحوں کو جس نے خون میں تڑپایا تھا۔ ابھی حال ہی میں جس نے ایک سانس میں چار شہروں پر خون تھوکا تھا۔

ہم روئے جارہے تھے۔ دہائیاں دے رہے تھے۔ نہیں؟ مگر کیا ہوا؟ احسان اللہ احسان نے معافی مانگی، ہم نے قبول کرلی۔ کوئی فرق پڑا؟ نہیں تو۔ ہماری بھی گزر ہی رہی ہے اور وہ بھی ہمارے پہلو میں بیٹھ کر مطمئن مسکراہٹیں بکھیرتا کتنا بھلا لگ رہا ہے۔

مشال کے قاتلوں کو بھی ہم اس کا خون بخش دیں تو کیا فرق پڑجائے گا؟ قاتلوں نے خون ہی پیا ہے نا یار، شراب پی ہوتی تو چلو کوئی بات بھی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).