مشالیں ساری بجھا دو کہ سوچ کی اجازت نہیں


دو نسلوں کے درمیان ہمیشہ ایک بنیادی فرق بے اطمینانی کا ہوتا ہے۔ بزرگ کا خیال ہوتا ہے وہ تجربہ کار ہے اس لئے وہ صحیح ہے۔ جوان کا خیال ہوتا ہے کہ بزرگ کو نئے زمانے کے تقاضے نہیں پتہ اس لئے وہ دنیا سے پیچھے رہ گیا ہے اور میں صحیح ہوں۔ غرض دونوں کو اپنی اپنی جگہ دوسرا بندہ غلط دکھائی دیتا ہے۔ بزرگ زمانے کو خراب کہہ کر جوان کو ڈراتا ہے اور جوان بزرگ کو زمانے کی رفتار سے متاثر کر کے تیز دوڑنے کا مشورہ دیتا ہے۔یہ وہ تضاد ہے جو ہمیشہ دو نسلوں کے درمیان رہے گا۔ ’او پتر تینو نئی پتہ‘ اور ’آپ کو نہیں پتہ ناں‘ کے درمیان بہت سی کڑواہٹیں بھی گھلتی جاتی ہیں۔ لیکن ایک بے اطمینانی اس سے بھی بڑی ہے اور وہ ہے ایک ہی نسل کے درمیان ایک دوسرے کے خیالات اور وجود کو قبول نہ کرنے کی بے اطمینانی۔ یہ وہ بے چینی ہے جو مخالف کو سانس لیتا دیکھ کر سلگتی جاتی ہے کہ یہ زندہ کیوں ہے؟

مشال صرف ایک انسان کا قتل نہیں ہے۔ اس کو صرف دو کیا ایک گولی مار کر بھی قتل کیا جا سکتا تھا مگر اس کو ایک مثال بنانا مقصود تھا کہ پھر اس یونیورسٹی تو کیا، اس کیمپس تو کیا بلکہ پاکستان میں بھی لوگ سوچنے اور اظہار کرنے سے ڈریں۔ جب سوچ کو قتل کرنا ہو تو پھر موت کو آسان نہیں کیا جاتا۔ گئے وقتوں کی دو مثالیں پیش ہیں۔

فرعون کے دربار میں جب ایک خادمہ نے دعوت حق پہ لبیک کہا تو فرعون نے ایک بڑا تانبے کا برتن گرم کروا کر پہلے ایک ایک کر کے اس کے بچوں کو ڈالا پھر اس مومنہ کو بھی اسی اذیت سے گزارا گیا۔ سوچ کو شکست دینے کیلئے آسان موت کا انتخاب نہیں کیا جاتا۔ برطانوی سامراج سے آزادی کی جنگ لڑنے والے سکاٹ لینڈ کے ہیرو ولیم والس کو اذیتیں دے کر قتل کرنے سے پہلے اس کے زندہ ہوتے ہوئے نازک اعضا کاٹ کر جلائے گئے پھر اس کے جسم کے ٹکڑے کر کے سر لندن برج پہ لٹکایا گیا جبکہ باقی جسم کے چار ٹکڑے کر کے نیو کاسل، بروک، پرتھ اور سٹرلنگ میں نمائش کیلئے رکھے گئے۔ جب سوچ کو قتل کرنا ہو تو خوف کا سہارا لیا جاتا ہے کہ آئندہ کوئی آواز نہ نکالے، سوال نہ اٹھائے۔ جو موٹے پردے ہمارے آنکھوں پر سپانسرڈ سیلیبس کے ذریعے گرائے گئے ہیں کوئی انہیں ہٹانے کی جرات نہ کرے۔

مشال وہ سوال تھا جو ہر گھر میں کئے جاتے ہیں چاہے وہ سوال کوئی کمسن بچہ کرے یا کوئی بے چین نوجوان۔ ہاں جواب دونوں کو ایک جیسا ملتا ہے: ’بیٹا ایسی باتیں نہیں سوچتے‘۔

سارا قصور سوچ کا ہی ہے۔ ہر دور میں سوچ کی تبدیلی ہی بڑے بڑے تخت الٹنے کا باعث بنی ہے اس لئے سوچ جیسے خطرناک عمل کو شروع میں ہی روکنا لازمی ہے۔ ہمیں سوچنے کا وقت ہی نہیں دیا جاتا۔ 14 نکات جیسے تھے ویسے ہی پیپر میں لکھنے ہیں یہ نہیں پوچھنا کہ سندھ کو بمبئی سے الگ کیوں کروانا تھا؟ تمام صوبوں کو خودمختاری دینے سے کیا ہو جاتا؟ ہمیں یہ نہیں سوچنا کہ محمود غزنوی کو صرف سومناتھ کے مندر پر ہی فتح کا جھنڈا کیوں لہرانا تھا؟ آس پاس بہت سے الگ الگ مراکز شرک بھی تو تھے۔ ہمیں یہ نہیں پوچھنا کہ جب یتیم بے آسرا کی کفالت دین میں ثواب ہے تو سڑک کنارے رلتے بچے کو دیکھ کر سب منہ کیوں پھیرتے ہیں؟ وہ کتوں کی غذا یا بعد میں غلیظوں کا مزا کیوں بن جاتا ہے؟

سوچنا منع ہے اور سوال اٹھانا گستاخی۔ گستاخی کی سزا اگر یہ بوسیدہ بدبودار نظام نہ دے سکا تو گھٹیا اور خوفناک ارادے رکھنے والے طے کرینگے۔ کسی نے مجھ سے کہا کہ انہیں اپنے ہندو دوستوں کی فکر ہے کہ اگر کوئی ان سے زور زبردستی یا دھوکہ دہی کرے تو الٹا ان پہ الزام لگا کر جان چھڑانا منٹوں کا کھیل ہے۔ پورا بازار جمع ہو کے آگ لگا دے گا۔ پولیس موقع پہ دیر سے آئیگی اور بلوائیوں کو تو سزا بھی نہیں ہوتی کہ وہ فرد نہیں افراد ہیں۔ کسی نے لطیفہ بھیجا کہ لڑکی ذرا بھی نخرے دکھائے تو اسی وقت دھمکی دے ڈالو۔ مطلب کہ توہین، گستاخی، غداری وغیرہ وغیرہ ذاتی فوائد کےلئے کام آئے تو اس قوم کے پسندیدہ موضوع قرار پاتے ہیں بہرحال جنون کسی بھی صورت میں ہو، عقل و ہوش کا دشمن ہوتا ہے۔

کون ایمان پر ہے اور کون نہیں اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار تو اللہ نے کبھی پیغمبروں کو نہیں دیا تو پھر ہم اور آپ کون ہیں جو کسی ملحد کی ایجاد فیس بک پر دو پوسٹ دیکھ کر کافر اور واجب القتل کا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھیں۔ ایک عجیب سا ہجوم ہے کہ آواز لگنے پر قتل کو دوڑتا ہے۔ ہاتھ اٹھانے والے کتنے ہاتھ روزانہ پانچ مرتبہ اللہ اکبر کہتے اللہ کی بڑائی بیان کرنے والے تھے؟ گولی چلانے والے کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کتنی مرتبہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی؟ بعد از مرگ نوٹیفیکیشن نکالنے والے اساتذہ خود کتنے با عمل مسلمان تھے؟

ایک فرد کی تصویر لگا کر جعلی پروفائل بنانا کتنے منٹوں کا کام ہے؟ کسی کی فیس بک ٹویٹر سے اختلاف ہے تو اسکے پاس جا کر کہو، بات کا آغاز کرو، کچھ اس کی سنو کچھ اس کو بتاﺅ، اس کا رنگ غلط تو اپنا رنگ چڑھانے کی کوشش کرو مگر اتنی محنت کون کرے، سب کا اپنا رنگ جو کچا ہے۔

دو نسلوں کے درمیان ہمیشہ سوچ کا فرق ہوتا ہے مگر یہی فرق اگر ایک نسل کے درمیان ہو اور وہ فرق فساد میں بدل جائے تو قوم کا نہیں پتا مگر وہاں کی مائیں ضرور اجڑتی جاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).