چاکلیٹ گناہ کم کرتی ہے


پسماندہ ملکوں کے بچے چاک کھاتے ہیں اور ترقی یافتہ ملکوں کے بچے چاکلیٹ۔ نام سے ایسا لگتا ہے کہ چاکلیٹ لیٹ کر کھانے کی چیز ہے مگر اسے لیٹ کر ، بیٹھ کر ، چلتے پھرتے ، کام کے دوران ، بس میں ، ٹرین میں ، کار میں جب اور جہاں کھانے کا دل کرے ، کھایا جاسکتا ہے۔ کینیڈا میں لوگ کان نہیں کھاتے کیونکہ وہ چاکلیٹ کھاتے ہیں۔ چاکلیٹ یہاں اتنی بکتی ہے جتنی کہ پاکستان میں سر درد کی گولی۔ یہاں چاکلیٹ کھانے کی کوئی عمر نہیں۔ یہاں چاکلیٹ کھانے سے وہی پرہیز کرتا ہے جس کے دانت یا بٹوہ اجازت نہ دیتا ہو۔ ڈاکٹر منع کر کر کے اور دکاندار چاکلیٹ بیچ بیچ کر تھک جاتے ہیں۔ یہاں بچوں کی جیب میں چاکلیٹ جبکہ بڑوں کی جیب میں چاکلیٹ اور وہ ایک چیز ضرور ملتی ہے جو لیٹ کر ہی استعمال ہوتی ہے۔

چاکلیٹ کے بارے میں تاریخ بتاتی ہے کہ یہ گیارہ سو قبل مسیح سے استعمال ہورہی ہے۔ چاکلیٹ اسپینش زبان کا لفظ ہے جو انگریزی ، اردو اور پتا نہیں کتنی زبانوں میں گھس آیا ہے۔ اتنی پرانی چیز آج بھی اسی شوق سے کھائی جا رہی ہے کہ لگتا ہے کل ہی بازار میں آئی ہے۔ چاکلیٹ کا رسیا ڈاکٹر چھوڑ دیتا ہے مگر چاکلیٹ نہیں۔ چاکلیٹ گناہ کم کرتی ہے ، جب تک منہ میں ہو آدمی غیبت اور گالیوں سے بچا رہتا ہے۔ تازہ تحقیق کے مطابق چاکلیٹ کی ایک قسم کینسر سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ آج کے دور میں جس چیز کی فروخت بڑھانا ہو بس کہہ دیں کہ یہ کینسر نہیں ہونے دیتی۔ اگلے دن سے لوگ اس چیز کو کھانا شروع کردیتے ہیں۔

کینیڈا میں چاکلیٹ کھانے کا اتنا رواج ہے کہ لگتا ہے لوگ منہ میں چاکلیٹ لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں دوستی کرنی ہو تو چاکلیٹ پیش کیا جاتا ہے۔ محبوبہ کو منہ بھر کر پیار اور چاکلیٹ نہ ملے تو وہ روٹھ جاتی ہے۔ درجنوں کھانوں میں چاکلیٹ استعمال کی جاتی ہے۔ ہر میٹھے پکوان کی تان چاکلیٹ پر ٹوٹتی ہے۔ دنیا کا سب سے بڑی چاکلیٹ اٹلی میں بنائی گئی تھی جس کا وزن پانچ ہزار پونڈ تھا۔ اس چاکلیٹ کو بنانے میں تو بڑی محنت اور پیسہ صرف ہوا ہوگا مگر کھانے والوں نے اسے چٹکی بجاتے کھالیا ہوگا۔ جبکہ کہا یہ جاتا ہے کہ چاکلیٹ اتنی ہی کھاؤ جتنی چاکلیٹ تم اٹھا سکو۔

چاکلیٹ کھانے کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں مگر مقدار کی ہے۔ کہتے ہیں دو پونڈ چاکلیٹ کھانے سے پانچ پونڈ وزن بڑھ جاتا ہے۔ دنیا میں دس میں سے نو افراد چاکلیٹ کھاتے ہیں اور دسواں جھوٹ بولتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے پر محبوبہ اور چاکلیٹ منہ سے لگی ہوتی ہے۔ محبوبہ دل سے اترجاتی ہے مگر چاکلیٹ نہیں۔ یورپ کی ایک کہاوت ہے کہ اس دوست سے بہتر کوئی نہیں جس کے ہاتھ میں آپ کیلئے چاکلیٹ ہو۔

محبوبہ تنہائی میں مزہ دیتی ہے مگر چاکلیٹ ہر جگہ۔ وہ بوسہ اور چاکلیٹ ہی کیا جو منہ بھر کر نہ ملے۔ چاکلیٹ کے بعض شیدائی تو یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ میں جنت چھوڑدوں اگر وہاں چاکلیٹ نہ ہو۔ چاکلیٹ سے محبت پیدا ہوتی ہے اور محبت سے بچے۔ سکول میں وقت کی پابندی کروانی ہو تو اٹینڈنس کے ساتھ چاکلیٹ رکھ دیں ، ٹیچرز بھی ناغہ نہیں کریں گے۔ وہ شخص رومانٹک ہو ہی نہیں سکتا جو چاکلیٹ نہ کھاتا ہو۔ میٹھی بات اور چاکلیٹ سے آپ کسی کا بھی دل جیت سکتے ہیں۔ جو شوہر بیوی کو روزانہ چاکلیٹ دیتا ہے وہ جھگڑوں سے دور اور بیوی کے قریب رہتا ہے۔ جس جیب میں دوسروں کیلئے چاکلیٹ ہوتی ہے ، اس کیلئے سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رہتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).