نواز شریف نے عمران خان کو مٹھائی کی مار ماری


پاناما کی لا فرم موساک فونسیکا کے چوری شدہ کاغذات منظر عام پر آئے تو دنیا کے بے شمار سیاستدانوں کا نام اچھلنے لگا۔ شریف خاندان کے لئے پریشانی کی کوئی بات نہیں تھی کیونکہ اب پاکستان میں ’اوپر کی آمدنی‘ کو جائز تصور کرنے والوں کی اکثریت ہے اور عوام گلی محلے کی سڑک بنوانے یا گھر کا گٹر کھلوانے والے شخص کو ہی ووٹ دیتے ہیں خواہ وہ کتنا ہی کرپٹ کیوں نہ ہو۔

لیکن شریف خاندان کی دور اندیشی ضرب المثل ہے۔ نواز شریف نے اسی وقت اپنی کچن کیبنٹ کی میٹنگ بلا لی اور معاملے پر غور شروع کر دیا گیا کہ اگر عمران خان کے کرپشن کرپشن کا شور کرنے کی وجہ سے معاملہ پاکستان میں سنجیدہ صورت حال اختیار کر گیا تو کیا ہو گا۔

پریشانی کی بات یہ تھی کہ پاناما پیپرز میں موجود آف شور کمپنی کی ملکیت وہی فلیٹ تھے جن میں عرصہ دراز سے نواز شریف کے صاحبزادگان رہائش پذیر تھے۔ صورت حال گمبھیر تھی۔ گو کہ عرب دوستوں کے ذریعے پاناما کی حکومت کو قائل کر لیا گیا تھا کہ وہ دنیا کی کسی بھی تحقیقاتی ایجنسی سے تعاون نہ کرے، اور تھانہ ٹبی لاہور کے ایک مشہور بدمعاش کے ذریعے موساک فونیسکا کو اس بات پر مجبور کیا جا چکا تھا کہ وہ کسی بھی دستاویز کی تصدیق کرنے سے انکار کر دے، لیکن پھر بھی کپتان سے یہ اندیشہ تھا کہ وہ برطانیہ میں اپنے وسیع تعلقات کو کام میں لاتے ہوئے ایسے ناقابل تردید ثبوت حاصل نہ کر لے جن کی بنیاد پر فیصلہ شریف خاندان کے خلاف آ جائے۔

کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کپتان کے پریشر سے کیسے نکلا جائے۔ تمام افراد ادھر ادھر کی ہانک رہے تھے مگر کسی کی بات میاں صاحب کے دل کو نہیں لگ رہی تھی۔ خواجہ سعد رفیق ساری کارروائی سے بظاہر لاتعلق بیٹھے روسٹ بٹیر کھا رہے تھے۔ جب کوئی معقول مشورہ نہ ملا تو میاں صاحب نے مایوسی سے سر ہلایا اور اپنی کرسی سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ’میاں صاحب، کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ کپتان کرکٹ کا ایک کھلاڑی ہے اور اسے کرکٹ کی مار ہی ماری جا سکتی ہے۔ اگر آپ کہیں تو ایک حل پیش کروں؟‘

میاں صاحب چونک گئے۔ وہ خواجہ سعد رفیق کی صلاحیتوں سے بخوبی واقف تھے اور سٹوڈنٹ پالیٹکس میں ان کی کامیابیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ انہوں نے سر ہلا کر خواجہ سعد رفیق کو بات کرنے کا اشارہ کیا۔

’میاں صاحب کرکٹ میں اگر لائٹ کم ہو اور بال نظر نہ آ رہی ہو تو کھلاڑی چاہے جتنا بھی اچھا ہو، کیچ نہیں کر سکتا ہے۔ اندھے کے ہاتھ بٹیر آ جائے تو دوسری بات ہے۔ ایسا کریں کہ شریف خاندان کا ہر فرد ان فلیٹوں کی ملکیت کے بارے میں الگ الگ بیان دے۔ کپتان کی سمجھ میں ہی نہیں آئے گا کہ کون سا کیچ پکڑنا ہے‘۔

’خواجہ اس طرح تو یہ بیان ہمارے خلاف استعمال ہوں گے۔ ‘

’میاں صاحب یہ سب کون سا حلف اٹھا کر بیان دے رہے ہیں۔ ٹی وی چینل پر بیان دیں۔ آپ اسمبلی کے فلور پر بیان دیں جسے عدالت سے آئینی تحفظ حاصل ہے۔ کپتان آپ کے بچوں کے پیچھے بھاگتا رہے گا۔ کسی بچے پر بات آ بھی گئی تو آپ نے تھوڑا ہی نا اہل ہونا ہے۔ بچے کے جرم کی سزا باپ کو تو نہیں ملے گی‘۔

میاں نواز شریف کچھ دیر تک گہری سوچ میں مبتلا رہے اور پھر اتفاق میں سر ہلا دیا۔ اسحاق ڈار بول اٹھے ’فلیٹ خریدنے کے پیسے کہاں سے آئے۔ یہ سوال اٹھے گا‘۔

’اس مسئلے کا حل بھی موجود ہے۔ لیکن پہلے آپ کو ایک لطیفہ سناتا ہوں۔ ایک پہلوان مٹھائی کی دکان پر گیا۔ اس نے حلوائی کو کہا کہ ایک کلو لڈو تول دو۔ حلوائی نے لڈو تول دیے۔ پہلوان نے کہا کہ یہ لڈو ٹھیک نہیں لگتے ہیں۔ ایسا کرو کہ یہ واپس لے کر ایک کلو چم چم تول دو۔ حلوائی نے چم چم تول دیے۔ پہلوان نے چم چم پر بھی اعتراض کیا اور اس کی جگہ رس گلے تلوا لئے۔ پھر وہ واپس کر کے گلاب جامن لے لئے۔ گلاب جامن کا دونا لے کر پہلوان جانے لگا تو حلوائی نے کہا کہ میاں پیسے تو دیتے جاؤ۔ پہلوان نے کہا کس چیز کے پیسے؟ حلوائی نے کہا کہ گلاب جامن کے۔ پہلوان نے کہا کہ وہ تو میں نے رس گلوں کے بدلے لی تھیں۔ حلوائی نے کہا کہ چلو رس گلوں کے ہی دے دو۔ پہلوان نے کہا کہ رس گلے تو میں نے چم چم کے بدلے لئے تھے۔ حلوائی نے کہا کہ چم چم کے ہی پیسے دے دو۔ پہلوان نے کہا کہ چم چم تو میں نے لڈوؤں کے بدلے لئے تھے۔ حلوائی نے کہا کہ پہلوان جی چلو لڈوؤں کے پیسے ہی دے دو۔ پہلوان بولا کہ لڈو تو میں نے لئے ہی نہیں، ان کے پیسے کیوں دوں؟ تمہاری بدمعاشی ہے یہاں؟‘

میاں صاحب نے یہ لطیفہ سن کر کہا کہ ’خواجہ صاحب، یہ سو سال پرانا لطیفہ سن کر ہنسی تو نہیں آئی مگر بھوک لگ گئی ہے۔ اس کا پاناما سے کیا تعلق؟‘

خواجہ سعد رفیق مسکرائے۔ کہنے لگے کہ ’میاں صاحب، یہ فلیٹ آپ نے قطر کی کمپنی کے حصص کے بدلے خریدے تھے۔ قطر کی کمپنی کے حصص آپ نے جدہ کی سٹیل مل کے بدلے خریدے تھے۔ جدہ کی سٹیل مل آپ نے گلف سٹیل کے بدلے خریدی تھی۔ گلف کی سٹیل ملز آپ نے لاہور کی اتفاق فاؤنڈری کے بدلے لی تھی۔ اتفاق فاؤنڈری آپ کو تقسیم کے کلیم میں ملی تھی۔ جسے شک ہو تقسیم کا کلیم چیک کر لے۔ ویسے تو وہ اتنی پرانی بات ہے کہ اس کا ریکارڈ ہی گل سڑ گیا ہو گا‘۔

تو یوں قطری شہزادے کے خط کو عدالت میں ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا اور میاں صاحب پاناما سے بچ نکلے۔

سپریم کورٹ سے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ آ گیا ہے۔ امید ہے کہ سال دو سال تک اس کی رپورٹ بن جائے گی۔ یا ممکن ہے کہ حمود الرحمان کمیشن جیسی رپورٹ ہی بنے جسے سورج کی روشنی دیکھنا نصیب نہ ہو۔


پاناما کیس میں نواز شریف صاحب پھنس گئے ہیں

عمران خان کے پکوڑے اور شریف فیملی کے فلیٹ

کیپٹن صفدر: مریم کی کوئی آف شور کمپنی نہیں، اب ثابت کرو ذرا

نواز شریف نے عمران خان کو مٹھائی کی مار ماری

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments