حالات حاضرہ کے ذمہ دار ہم خود ہیں


جب سے مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی سے شعبہ ابلاغیات کے طالب علم مشال خان کی درد ناک ہلاکت کی خبر سنی ہے زبان گنگ ہے، ذہن ماوف ہے۔ یہ بھی سنا اور پڑھا کہ واقعہ کی وحشت ناک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردی گئی ہے۔ ویڈیو دیکھنے کی تاب تو لانا مشکل ہے اس لیے ویڈیو دیکھنے کی تو کوئی کوشش نہیں کی لیکن اس سوال کے ساتھ کہ مشال خان کو کن ظالموں نے ہلاک کیا؟ یہ سوال بھی پیدا ہوگیا کہ کن سنگ دلوں نے ہلاکت کی ویڈیو جاری کی؟ ویڈیو بناتے وقت ان ظالموں کے ہاتھ نہیں کانپے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مشال خان کو ان درندوں کے چنگل سے فوری طور پرچھڑایا جاتا اور طبی امداد کے لیے ہسپتال لے جایا جاتا لیکن کسی کی مدد کرنے کی تعلیم دینے کا رواج نہ یونیورسٹیز میں ہے اور نہ مدارس میں۔تعلیم تو یہی دی جارہی ہے کہ بلا تحقیق کسی پر بھی توہین رسالت کا الزام لگا کر قتل کردو۔ مشال خان کی ہلاکت کی جو بھی وجوہ رہی ہوں لیکن من حیث القوم قتل کا ذمہ دار قوم کا ایک ایک فرد ہے۔

مشال خان کی ہلاکت کے بعد اب تک جو تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ وہ چونکا دینے والی اور افسوس ناک ہیں۔ مثلاً قتل کے بعد اس بات کا حلف اٹھانا کہ قاتلوں کے نام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نہیں بتائے جائیں گے۔ ایک اور ویڈیو میں یونیورسٹی سے باہر جانے والی ہر گاڑی کو چیک کیا جارہا ہے کہ کہیں مشال خان کی لاش تو اس میں نہیں لے جائی جارہی۔ تمام ویڈیوز میں واقعے سے منسلک ہر فرد کو بآسانی شناخت کیا جا سکتا ہے۔ جس یونیورسٹی میں یہ افسوس ناک واقعہ پیش آیا ہے وہ محترم ولی خان کے نام سے منسوب ہے جو بذات خود تاحیات عدم تشدد کے علمبردار رہے ہیں۔ قتل کا الزام بھی ایسے سیاسی کارکنان پر لگایا جارہا ہے جن کا تعلق ترقی پسند جماعت سے ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اب ترقی پسند جماعتوں کے سیاسی کارکنان بھی مذہب کی آڑ میں اپنے مخالفین کو،اپنی بدعنوانیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے قتل جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں گو کہ مشال خان کے قتل میں دینی جماعتوں کے کارکنان کے ملوث ہونے کے ثبوت نہیں ملے ہیں لیکن قیام پاکستان سے لے کر اب تک ڈھنڈورا یہی پیٹا جا رہا ہے کہ پاکستان اللہ کا انعام ہے، اسلام کا قلعہ ہے۔ واحد اسلامی مملکت ہے جو مذہب کی بنیاد پر قائم ہوئی ہے۔ اسی اسلام کے قلعہ میں ہزاروں کی تعداد میں دینی مدارس ہیں۔ بیشتر مدارس میں کیا تعلیم دی جارہی ہے۔ اس کا اندازہ کرنے کے لیے فی الوقت مشال خان کی ہلاکت ہی کافی ہے۔ جن جنونیوں نے بھی ماضی میں اس طرح کے فعل انجام دیے ہیں۔ قوم ان کے مزار بناتی ہے اور اسلام کا ہیرو قرار دیتی ہے۔ جب تک یہ رویہ قائم رہے گانہ جانے کتنے مشال خان سے والدین بچھڑتے رہیں گے۔ قوم کا مزاج کچھ یوں ہے کہ عام فرد بھی، جس کو چاہے غدار، کافر اور گستاخ نبی قرار دے دیتا ہے۔

رحمتہ اللعالمین ﷺ تو اپنے مخالفین کے ظلم وستم سہنے کے باوجود، مخالفین کے لیے دعا گو رہے لیکن شاید یہ تعلیم دینی مدارس دینے سے قاصر ہیں۔ مشال خان کی ہلاکت کے بعد ایسے دینی مدارس کا جواز ختم ہوجاتا ہے جہاں سے فارغ التحصیل افراد مسجد ومنبر سے دینی شعور سے نابلد مذہبی جنونیوں کی حمایت کرتے ہیں اور قوم کو ترغیب دیتے ہیں کہ مذہب کے نام پر قانون اپنے ہاتھوں میں لے کر قتل کرنا دینی فریضہ ہے اور ایسا کرنے سے جنت، تمہارا مقدر ہے۔ جو افراد بھی مشال خان کی ہلاکت میں ملوث ہیں بے شک ان کاتعلق دینی جماعتوں سے نہ ہو لیکن وطن عزیز میں ماحول ایسا بنادیا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص توہین رسالت کا الزام لگا کر، عوام کو مشتعل کرکے اپنے مخالف کو قتل کرواسکتا ہے۔ مشال خان کے قاتل اگر پکڑے گئے اور پھانسی بھی چڑھ گئے تو کچھ نہیں بدلنے والا، ہاں ملک میں چڑھاوے چڑھانے کے لیے ایک مزار اور قائم ہوجائے گا اور کچھ عرصے بعد کسی اور مشال خان کے لیے نوحے پڑھے جارہے ہوں گے۔ کیونکہ ہم اسلام کے قلعہ کے باشندے ہیں اور حالات حاضرہ کے ذمہ دار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).