شیشہ اور دل نہیں، اسکول توڑیے


رات کی رات کہانی کے کردار بدل گئے۔

نہیں بدلی تو کہانی نہیں بدلی۔ جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ عمارت گرائی جا چکی تھی۔ اب وہ ملبے سے اٹھ کر دوبارہ تعمیر ہونے سے رہی۔

یہ سوتے جاگتے ابوالحسن کے شہر بغداد کا نہیں۔ اس شہر کراچی کا واقعہ ہے جہاں ایسے واقعات آئے روز پیش آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور یہ قصّے کسی نئی الف لیلہ کا حصّہ بھی نہیں بنتے۔ اس شہر کی طرح یوں ہی رہ جاتے ہیں۔

شام ڈھلنے نہیں پائی تھی کہ ٹیلی وژن اسکرین چیخ اٹھے۔ پہلے ایک آدھ تفصیل، پھر علاقے کا نام، دو ایک باتیں اور بہت سی خبروں کو جوڑ کر دیکھیے تو پتہ چلتا ہے کہ کہیں کچھ ہوا ہے۔

ایک اجڑی ہوئی عمارت کی تصویر سامنے آئی جو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکی تھی۔ اس کے پس منظر میں کچھ پرانے آثار بھی دکھائی دیے۔ پتہ چلا کہ سولجر بازار کے علاقے میں اسکول کی عمارت کو منہدم کر دیا گیا۔ راتوں رات لوگ آئے، عمارت کو ڈھانے پر کمربستہ ہوگئے، پولیس نے ان کو روکنے کی کوشش کی مگر اس سے پہلے وہ عمارت کا بڑا حصّہ گرا چکے تھے۔

شہر کے پرانے اور ایک زمانے میں بہت معتبر اور موقر سمجھے جانے والے جوفل ہرسٹ اسکول کا نام بھی سامنے آگیا کہ اگر آپ اب تک نہ سمجھے ہوں تو سمجھ جائیں۔ سمجھنے والے سمجھ گئے اور جو نہ سمجھے وہ اناڑی ہیں۔ ظاہر ہے آپ اناڑی نہیں، کھلاڑی بننا چاہتے ہیں۔ اس لیے جو سنا ہے اس پر اعتبار کر لیجیے۔ شہر میں ایک عرصے سے سرگرم بلڈر مافیا کو بُرا کہیے اور پولیس کی کارکردگی کو سراہیے۔ آخر کو پولیس آپ کی حفاظت پر مامور ہے اور آپ کے مفادات کی نگراں ہے۔

جو کچھ ہوا تھا وہ کیمرے کی آنکھ سے نظر آرہا تھا۔ سارے کردار واضح تھے کہ انھوں نے اپنی اپنی جگہ کیا کام دکھایا۔ بات اتنی صاف تھی کہ سمجھ میں آسکتی تھی۔

لیکن اگلے دن سے مزید تفصیلات سامنے آنے لگیں۔ تب احساس ہوا کہ معاملہ اتنا سیدھا اور صاف نہیں ہے جس طرح پیش کیا گیا ہے۔

اس اسکول کی قدیمی عمارت پر بہت عرصے سے زمین ہڑپ کرنے والوں کی نظر تھی۔ شہر کے قدیمی ورثے کی حامل ان عمارتوں کو حکومت اور شہری اداروں کی بے توجہی کے سبب لاوارث سمجھ لیا گیا ہے۔ دھیرے دھیرے یہ مسمار کی جارہی ہیں۔

جوفل ہرسٹ اسکول کی عمارت لگ بھگ 86 سال پرانی ہے۔ اسکول کی بنیاد مس سبل ڈبریو، (D’Abreo) نے رکھی تھی۔ اسکول کا یہ نام میں نے اپنے بچپن سے سن رکھا تھا مگر اب جا کر پتہ چلا کہ یہ نام دراصل اسکول کی بانی نے اپنے ماں باپ کے ناموں کے پہلے اور آخری حصّوں کو جوڑ کر بنایا تھا۔ جب تعلیمی ادارے قومی ملکیت میں لیے گئے تو یہ اسکول بھی اس کی زد میں آگیا۔ پھر رفتہ رفتہ اس کی حالت بھی باقی تمام سرکاری اسکولوں جیسی ہوگئی۔ شہر کے دوسرے موقر تعلیمی ادارے جب ان کے پرانے منتظمین کے حوالے کیے گئے__ جن میں میرا اسکول بھی شامل تھا __ تو ان میں یہ اسکول شامل نہیں ہوسکا۔ بہرحال برا یا بھلا یہ چلتا ہی رہا۔ اسکول کی عمارت کے ساتھ مس ڈبریو نے اپنے قیام کے لیے ایک بنگلہ تعمیر کروایا تھا جو کراچی کے پرانے، نو آبادیاتی طرز تعمیر کا عمدہ نمونہ تھا۔ اسی بنگلے کو ڈھایا گیا۔ اس کی ملکیت کے دعوے دار خدا جانے کہاں سے پیدا ہوگئے تھے۔

اسکول کے ہیڈ ماسٹر کا بیان سامنے آگیا جس میں انھوں نے بتایا کہ ہفتے کی رات ان کو خبر ملی کہ کچھ لوگ اسکول میں گھس کر توڑ پھوڑ پر اُتر آئے ہیں۔ ہیڈ ماسٹر صاحب وہاں پہنچ گئے۔ انھوں نے بتایا کہ محلّے کے لوگ وہاں جمع ہوگئے اور ان لوگوں کو روکنے کی کوشش میں ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ انھوں نے ان ’’نامعلوم افراد‘‘ کو بتایا کہ یہ عمارت سندھ حکومت کے اعلان کے مطابق ’’محفوظ شدہ عمارت‘‘ ہے اور اس میں توڑ پھوڑ جُرم ہے۔ ان لوگوں نے کہا کہ عمارت کی ملکیت ان کے پاس ہے۔ اور وہ ایسا کرنے کا قانونی حق رکھتے ہیں۔

مزید تفصیلات سامنے آئیں تو یہ امکان بھی سامنے آیا کہ پولیس کے افسران اس کارروائی میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ ان کی آشیرباد کے ساتھ یہ کام آسانی سے کر لیا گیا ہوگا۔ پولیس کے انسپکٹر جنرل نے تفتیش کا حکم دیا اس میں واضح الفاظ میں کہا گیا کہ اس تفتیش کی معلومات خفیہ رکھیں۔

لوگوں کا روک تھام میں عملی طور پر شامل ہو جانا اور پولیس افسروں کے ملوث ہونے کا امکان، یعنی ان کرداروں کے اصل رخ سامنے آگئے اور ان کی روایتی حیثیت بدل گئی۔

یہ اس واقعہ کا عجیب موڑ ہے۔ اب اس کے بعد انہدام، افسوس، ذمہ داری کی کمی، حکومت کی غفلت، ان سب کی جگہ قانونی جنگ لے لی گی جس کی تفصیلات اتنی زیادہ ہیں اور مرحلے اتنے دشوار کہ رفتہ رفتہ یہ ساری باتیں لوگوں کے ذہن سے محو ہو جائیں گی۔

ایسی عمارت کے انہدام کے لیے باقاعدہ اجازت نامے کی ضرورت پڑتی ہے اور انہدام کا باقاعدہ منصوبہ دفتر میں جمع کرانا پڑتا ہے۔ این ای ڈی یونیورسٹی کے ماہر تعمیرات پروفیسر نعمان احمد کی گفتگو کا حوالہ اخبار ’ڈان‘ میں آیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر یہ اجازت حاصل کر لی گئی ہے تو پھر معاملہ مزید الجھ جائے گا۔ یا شاید الجھا دیا جائےگا۔ ماہر تعمیر ماروی مظہر کا بیان بھی اسی اخبار میں شائع ہوا کہ اس عمارت کی بحالی کے لیے تیاری کی جارہی تھی اور محکمۂ تعلیم سے منظوری لے لی گئی تھی۔

تاریخی عمارت پر بل ڈوزر چلانے والے زیادہ مستعد نکلے اور بحالی کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ شہر کی تاریخی عمارتوں کے ساتھ یہ عمل باقاعدگی سے پیش آرہا ہے۔ چند دن شور ہنگامہ رہتا ہے، پھر دوسری باتیں نکل آتی ہیں۔

کہیں یہ پرانی کہانی پھر سے تو نہیں دہرائی جارہی؟

مگر یہ پرانی کہانی میرے شہر میں ہر بار نئی ہو جاتی ہے۔ اس علاقے کا نام سولجر بازار شہر کے برطانوی راج والے عرصے کا غمّاز ہے۔ کشادہ بنگلے اور عمدہ رہائشی مکان کسی زمانے میں اس کی خاصیت رہے ہوں گے۔ مجھے خاص طور پر سینٹ لارنس چرچ کے آس پاس کا وہ علاقہ یاد ہے جس کا نام کاغذوں میں سنسناٹس ٹائون درج ہوگا۔ دوچار پرانے لوگ اب بھی اس نام سےواقف ہیں۔ اسی کے آس پاس میرے پرانے دوست میلون لوبو کا گھر تھا۔ ویریڈین کاٹیج اس کا نام باہر تختی پر درج تھا۔ فاصلے بڑے قطعۂ زمین کے وسط میں پرانے طرز کا مکان آسودگی اور خوش حالی کی تصویر معلوم ہوتا تھا۔ اس سڑک پر دونوں طرف مکان ٹوٹنے لگے اور ان کی جگہ فلیٹوں نے لے لی۔ یہ مکان تب بھی کھڑا رہا۔ خاندان کے لوگ بھی ایک ایک کرکے جانے لگے اور آخرکار میلون کی والدہ کو بھی اس دبائو کے آگے جھکنا پڑا۔ یہ مکان توڑ دیا گیا۔ مگر میری نظروں میں وہ اب بھی ہنستا بستا گھر ہے جس میں دوچار سیڑھیاں چڑھنے کے بعد دروازہ ہے اور دروازے کے اندر پیانو رکھا ہوا ہے جس کے نغمے اب بھی کانوں میں گونج رہے ہیں۔

کراچی کا یہ علاقہ اور اس کے مخصوص مکان ڈھا دیے گئے۔ ان کو محفوظ رکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ اب ہر طرف کنکریٹ کا جنگل پھیل گیا ہے، فلیٹ ہی فلیٹ۔ باقی پرانے مکانوں کی طرح اسکول کے بنگلے کا گرایا جانا مقّدر ہوگیا تھا، مکان اجاڑ جو ہوگیا تھا۔

شیشہ اور دل موجود نہیں، اسکول توڑیے۔

مندر اور مسجد میسر نہیں، اسکول ڈھائیے۔

خرابی کی صورت کسی نہ کسی طرح باقی رہے۔

تھوڑے دنوں میں اور واقعات برپا ہو جائیں گے۔ لوگ بھول جائیں گے۔ اس اسکول کا نام آیا تو چونک کر پوچھیں گے، اچھا ایسا بھی ہوتا ہے زمانے میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).