آصف زرداری کا ایمانداری پر لیکچر دینا قیامت کی نشانی ہے، چوہدری نثار


ٹیکسلا میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے کو سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیے اور نہ اس کے لیے مزید عدالتیں لگنی چاہیے مگر یہاں عدالتوں کے اوپر عدالتیں لگ رہی ہیں اور لوگ اپنی خواہشات کے مطابق عجیب عجیب منطق دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2 ججوں نے اپنی الگ رائے کا اظہار ضرور کیا لیکن جے آئی ٹی بنانے میں پانچوں ججوں کے دستخط موجود ہیں جب کہ کوئی بھی جج اکثریت کے فیصلے سے اختلاف کرکے الگ بھی ہوسکتا ہے لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلہ کسی کی خواہش کے مطابق نہیں ہوسکتا، قانون اور آئین کے مطابق ہوگا اور یہ اس وقت تک ہے جب تک جے آئی ٹی رپورٹ نہیں آجاتی لیکن لوگ عدالتی فیصلوں کے خلاف آوازیں اٹھارہے ہیں اور کچھ ججوں کے خلاف باتیں کی جارہی ہیں۔

وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کی جانب سے قوم کو ایمانداری پر لیکچر اور لوگوں کو 62،63 پر سرٹیفکیٹ بانٹنا قیامت کی نشانیاں ہیں جب کہ جس پارٹی کے دور اقتدار میں عجب کرپشن کی غضب کہانیاں بنیں وہ لوگ وزیراعظم کو مستعفیٰ ہونے کا کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاناما کیس کسی ڈائمنڈ کی چوری کا کیس یا کرپشن کیس نہیں بلکہ کچھ فلیٹس کا معاملہ ہے جو وزیراعظم اور ان کی فیملی نے خریدے، کہ ان کے پیسے کہاں سے آئے اور کس نے دیے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن رہنما شروع سے جے آئی ٹی بنانے کا کہہ رہے تھے مگر آج جب سپریم کورٹ نے خود حکم دیا جے آئی ٹی کا تو شور ہورہا ہے، خدارا اس ملک پر رحم کریں اور اس کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ پر ہی چھوڑ دیں جب کہ فیصلہ صرف الزامات نہیں بلکہ شواہد کی بنیاد پر ہی ہوگا۔

ڈان لیکس کے معاملے  پر بات کرتے ہوئے چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ نیوز لیکس کی رپورٹ پاناما کیس کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئی جو منگل تک وزیراعظم کو پیش کردی جائے گی جب کہ میں صرف اللہ کے سامنے جواب دہ ہوں، نوازشریف یا عدالت کے سامنے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت جس دن سے آئی ہے اس کو کام نہیں کرنے دیا جارہا ہے، تحریک انصاف کی تجویز سے چیف الیکشن کمشنر آئے اور 4 میں سے 3 ممبر الیکشن کمیشن پیپلزپارٹی کی  مرضی سے آئے اور تمام صوبوں اور وفاق میں نگراں سیٹ اپ پیپلزپارٹی کی مرضی سے بنا تھا، نجم سیٹھی کی میں نے ،شہبازشریف نے نگران سیٹ اپ میں لانے کی مخالفت کی تھی تو وہ کیسے ہمارے لیے کام کرسکتا تھا لیکن پھر بھی ہم پر اعتراض کیا جاتا ہے، ہمیں برا بھلا کہا جاتا ہے تاہم ہمارا موازنہ فرشتوں سے کرنے کے بجائے پچھلی حکومت کی کارکردگی سے کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).