میں لاپتہ ہوگیا ہوں- ایک آوارہ گرد نظم


اردو شاعری میں آوارہ گرد اشعار روایت کا ایک باقاعدہ حصّہ ہیں۔ بعض اشعار ایسے ہوتے ہیں جو بہت سے لوگوں کو یاد ہوتے ہیں لیکن جن کے بارے میں پتہ نہیں ہوتا کہ یہ شعر کس کا ہے۔ یعنی جدید معنی میں شعر اپنے خالق کے ادھورے یا غائب حوالے کے بغیر بھی اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔ بعض اشعار کسی اور شاعر سے منسوب ہو جاتے ہیں جب کہ بعض میں ایک آدھ لفظ کی ترمیم بھی ہو جاتی ہے۔ پرانے زمانے کا شعر نیا معلوم ہونے لگتا ہے اور نئے شعر کے انداز کلاسیکی ہو جاتے ہیں۔

اب یہی شعر دیکھیے۔ شاید اس کا کوئی مصرعہ، کوئی ٹکڑا آپ کے حافظے میں جگمگا رہا ہو۔

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

محمد حسین آزاد نے آبِ حیات میں لکھا ہے کہ مشاعرے میں ایک نوجوان شاعر نے ڈرتے جھجکتے یہ شعر پڑھا۔ شعر سن کر مرزا رفیع سودا نے اس لڑکے سے کہا، میاں تم جیتے نظر نہیں آتے۔ کرنا خدا کا کیا ہوا، وہ شاعر جواں مرگ نکلا۔ اس شاعر کا نام، اس واقعے کی تفصیلات نہ بھی معلوم ہوں تب بھی شعر ایسا ہے کہ بھلائے نہیں بھولتا، حالاں کہ محقق حضرات نے شعر کو دوسری طرح بھی لکھا ہے اور آزاد کے بیان کو من گھڑت ۔ حقیقت کچھ بھی ہو اس شعر کی آنچ تو مجھ تک آج آئی ہے۔

اسی طرح ایک شعر کے عام طور سے میرتقی میر سے منسوب کیا جاتا ہے:

 وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا

پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

یہی شعر میر کے بجائے دوسرے شعراء کے نام سے بھی دہرایا جاتا ہے۔ محمد شمس الحق نے اپنی کتاب ’’اردو کے ضرب المثل اشعار‘‘ میں اس کو مہاراج بہادر برق سے منسوب کیا ہے۔

 وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا

پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

اس طرح کے سیکڑوں اشعاد ہیں۔ قاضی عبدالودود نے ’’آوارہ گرد اشعاد‘‘ کے نام سےمضامین کا پورا سلسلہ تصنیف کیا جو بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوا۔ قاضی صاحب کی باریک بینی اور موشگافی اپنی جگہ، عوام کا حافظہ بڑا سخت ہوتا ہے۔ بعض اشعار زبان پر غلط چڑھ جائیں تو ان کی درستی مشکل ہو جاتی ہے اور اگر شعر اپنے شاعر کے بغیر زبان زد خاص و عام ہو جائے تو پھر کیا کِیا جاسکتا ہے۔

بہت عرصہ پہلے میں نے ایک مصرعہ سنا تھا جو اس وقت یاد رہ گیا۔

 اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

کہیں بعد میں جاکر پتہ چلا کہ اس کا پہلا مصرعہ کیا ہے اور اس شاعر کے خالق کون ہیں۔

شعر تو نہیں، اب اس طرح کی ایک نظم سے میرا سابقہ پڑا ہے اور میں اسے آوارہ گرد نظم سمجھ بیٹھا۔ اسلام آباد کی تازہ دم صبح تھی۔ میں اپنے کمرے میں بیٹھا وہ خیرمقدمی کلمات قلم بند کررہا تھا جو مجھے اس شام اسلام آباد لٹریچر فیسٹول کی افتتاحی تقریب میں ادا کرنا تھے۔ ایسے کلمات عام طور پر رسمی ہوتے ہیں لیکن میں کوشش کرتا ہوں کہ کسی کتاب کا حوالہ، کسی نظم یا افسانے کا ٹکڑا اس میں شامل ہو جائے۔ اتالو کالوینو کے خطوط کا مجموعہ اس نیت سے میرے سرہانے رکھا ہوا تھا۔ صفحہ ابھی آدھا لکھا گیا تھا کہ مردان یونی ورسٹی کی خبر اپنی ہولناک تفصیلات کے ساتھ سامنے آنے لگی۔ میں نے وحشت زدہ ہو کر قلم رکھ دیا۔ لکھنا پڑھنا سب ہیچ و پوچ نظر آنے لگا۔ سب سے پہلے اور نہ جانے کتنے ہی ذریعوں سے وہ بہیمانہ ویڈیو اسکرین سے جیسے اچھل اچھل کر میرے سامنے آنے لگی۔ میں اس ویڈیو کو بس وہیں تک دیکھ سکا جہاں ایک مشتعل ہجوم قتل کے ارادے سے یونی ورسٹی کی سڑکوں پر نعرہ زن، مستانہ وار چل رہا ہے۔ میرے لیے اس امیج کی ہولناکی سے آگے بڑھنا ممکن نہ تھا۔ پھر میں نے فیس بک کھول کر مشال خان کا نام تلاش کیا۔ شاید مجھے تجسّس تھا کہ اس نے آخر ایسا کیا لکھ دیا ہے۔ مارچ کی ابتدائی تاریخوں میں سے کسی ایک دن اس نے یہ نظم وہاں پر درج کی ہے۔ شاعر کا نام اس نے نہیں لکھا۔ پھر نظم تھی بھی ایسی پُراثر کہ اس طرف ذہن ہی نہیں گیا۔ آج کی پوری صورت حال جیسے اس میں سمٹ آئی تھی،

میرے ادھورے خُطبے میں جیسے یہ نظم خود بخود اُترتی چلی گئی۔

’’میں لاپتہ ہوگیا ہوں

کئی ہفتے ہوگئے

پولیس کو رپورٹ لکھوائے

تب سے روز تھانے میں جاتا ہوں

حوالدار سے پوچھتا ہوں

میرا کچھ پتہ چلا؟

ہم درد پولیس افسر مایوسی سے سرہلاتا ہے

پھنسی پھنسی آوازیں میں کہتا ہے

ابھی تک تمہارا کچھ سراغ نہیں ملا

پھر وہ تسلّی دیتا ہے

کسی نہ کسی دن

تم مل ہی جائو گے

بے ہوش

کسی سڑک کے کنارے

یا بُری طرح زخمی

کسی اسپتال میں

یا لاش کی صورت

کسی ندی میں

میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں

میں بازار چلا جاتا ہوں

اپنا استقبال کرنے کے لیے

گُل فروش سے پھول خریدتا ہوں

اپنے زخموں کے لیے

کیمسٹ سے

مرہم پٹی کا سامان

تھوڑی روئی

اور درد کشا گولیاں

اپنی آخری رسومات کے لیے

مسجد کی دکان سے ایک کفن

اور اپنی یاد منانے کے لیے

کئی موم بتّیاں

کچھ لوگ کہتے ہیں

کسی کے مرنے پر

موم بتّی نہیں جلانی چاہیے

لیکن وہ یہ نہیں بتاتے

کہ آنکھ کا تارا لاپتہ ہوجائے

تو روشنی کہاں سے لائیں

گھر کا چراغ بجھ جائے

تو پھر کیا جلائیں؟

ایسا لگتا تھا کہ یہ نظم مشال خان نے لکھی ہے۔ اس نے نہیں تو پھر کس نے لکھی ہے؟ میں شاعر نہیں ہوں ورنہ میں یہ کہہ سکتا تھا کہ ہاں، یہ نظم میں نے لکھی ہے۔ اس لیے کہ میں لاپتہ ہوگیا ہوں۔

مگر میں لاپتہ نہیں ہوا۔ اس لیے موم بتّی جلاتا ہوں۔ میری موم بتّی میرے ہاتھ میں یہ کتاب ہے۔

تھوڑی دیر بعد فون پر میسیج آگیا اور میرے دوست مبشر علی زیدی نے یاد دلایا کہ یہ ان کی نظم ہے۔ مبشر علی زیدی کو لاکھوں لوگ سو لفظوں کی کہانی کے حوالے سے جانتے ہیں۔ بات سنوار کر سلیقے سے نثر لکھتے ہیں۔ شاعری ان کے لیے ذریعۂ عزّت نہیں۔ پھر مجھے یاد آیا، یہ لالٹین نامی ویب سائٹ پر شائع ہوئی تھی اور اس کا لنک انھوں نے بھیجا تھا۔ میں ان کو اس نظم میں مبارکباد دینے سے رہ گیا۔

اس وقت بلاگرز کی گم شدگی کا حوالہ تھا۔ اب اس سرکشیدہ نوجوان کے دن دہاڑے قتل کا معاملہ۔ نظم پہلے بھی برمحل تھی اور آج بھی ہے۔ اس نظم کا لکھنے والا گم نام ہے اور نہ غیرمعروف۔

ہندوستان کے معروف ماہر قانون اے جی نورانی کلیدی خطبہ دینے کے لیے آئے تھے۔ انھوں نے مجھ سے یہ نظم مانگی۔ نظم کو جیسے تیسے انگریزی میں لکھ کر ان کے حوالے کیا۔

اتنی دیر میں جانے کہاں کہاں سے لوگوں نے اس نظم کو دہرانا شروع کر دیا تھا۔ آج کل کے محاورے میں یہ نظم ’’وائرل‘‘ ہوگئی۔ بہت سے لوگوں کے لیے اس نظم کے شاعر کا نام شاید غیرضروری تفصیل تھا، سو انھوں نے الگ کر دیا۔

یہ نظم آوارہ گرد بن گئی۔ دوست احباب تحقیق کریں گے کہ کس نے لکھی اور کب۔ مجھے یہ تحقیق کی موشگافی بھی گوارا ہے۔ (اس لیے کہ آخر میں تو میرا دوست مبشر علی زیدی نکلے گا!) لیکن میں بس یہ چاہتا ہوں کہ مشال خان جیسے کڑیل جوان اس ظالمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ نہ اتارے جائیں۔ ان کے ماں باپ جسدِ خاکی کے ہاتھ چومنا چاہیں تو انھیں یہ اندازہ نہ ہو کہ ساری ہڈیاں توڑ ڈالی گئی ہیں۔ مشال خاں سر اٹھائے زندہ رہے۔ اور میں باقی خُطبہ اتالوکالوینو کے خطوط کے حوالے سے پورا کروں جہاں میں صفحہ نمبر نو سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ آگے بڑھتا بھی تو کیسے__ مشال خان کا لہولہان بدن میرے سامنے آتا رہا اور میں آنکھیں بند نہیں کر سکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).