ہجوم کی دیوانگی اور احتسابی انصاف کا فریق حقیقی


 حضرت یسوع مسیح کو مصلوب کر دیا گیا۔ انسانوں سے شفقت اور محبت کا درس دینے والے کو اذیت ناک موت دی گئی۔ سزا کا حکم سنانے والے حاکم سے بہت برس بعد اس واقعے کے بارے میں دریافت کیا گیا۔ بوڑھے شخص نے یادداشت پر زور ڈالتے ہوئے کہا کہ مجھے اس طرح کا کوئی واقعہ یاد نہیں۔ سزا کا اختیار رکھنے والا اپنے قلم کی جنبش بھول چکا تھا۔ انسانیت اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہے۔ آج اربوں انسانوں کے لیے یسوع علیہ السلام کا نام معنویت سے معنون ہے۔ بحیرہ قلزم کے قصباتی گورنر کو کوئی نہیں جانتا۔ بعثت اسلام کے بعد تیرہ برس بہت مشکل تھے۔ شعب ابی طالب کی اسارت تاریخ کا حصہ ہے۔ عام الحزن کی تفصیل ہم سب جانتے ہیں۔ پیغمبر اسلام کا ساتھ دینے والے تعداد میں کم تھے، رسوخ میں کمزور تھے اور اپنے ایقان کی روشنی میں کھڑے ہونے کی ہمت رکھتے تھے۔ رحمت کے اس پیغام کی مخالفت کرنے والوں کے پاس دو ہتھیار تھے۔ تقلید اور تعصب۔ مکہ فتح ہو گیا۔ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ حقانیت کی آزمائش بس اتنی ہی ہوتی ہے۔ تاریخ کے ہر موڑ پر دریافت کیا گیا سچ انسانوں کی اجتماعی میراث بن جاتا ہے۔ 152 برس پہلے اپریل ہی کا مہینہ تھا۔ 15 اپریل 1865ء کی صبح ابراہم لنکن نے آنکھیں بند کر لیں تو اس کے دوست اور کابینہ کے رفیق ایڈون سٹانٹن نے تاریخی جملہ کہا تھا۔ ’وہ اب نسلوں کی میراث بن چکا‘۔ 21 اپریل اقبال کا یوم وفات ہے۔ اکثر تعجب ہوتا ہے کہ اقبال نے تعصب کے خلاف بغاوت کو اسلام کی روح کے طور پر سمجھا اور بیان کیا۔ ہم تعصب کی نفسیات کو سمجھ کیوں نہیں پائے؟

تعصب انصاف کے سوال پر دلیل اور مکالمے سے انکار کو کہا جاتا ہے۔ یسوع کے پیغام شفقت اور محمد مصطفی کے پیغام رحمت پر ہزاروں برس گزر گئے تو اہل حق کے مقدس نام پر اجارہ مانگنے والے سامنے آگئے۔ کلیسا کا احتساب چار سو برس جاری رہا۔ رسم کو سچائی سے کیا نسبت ہو سکتی ہے؟ بخشش نامے بیچنے والے عشق کے آداب کیا جانیں؟ جان، مال، وسائل اور آزادی پر اختیار کا جھگڑا تھا۔ الزام لگایا جاتا تھا۔ اعتراف کی صورت میں سزائے موت دی جاتی تھی۔ اعتراف نہ کرنے پراذیت کی مدت لامحدود تھی۔ یورپ کے ان گنت قصبوں میں دریاﺅں کے کنارے لکڑی کے وہ مینار آج بھی موجود ہیں جن سے لاکھوں عورتوں کو پایاب پتھروں پر پھینکا گیا۔ بلندی سے گر کر مرنے والی ملزم عورت معصوم قرار پاتی تھی۔ بچ جانے والی کو چڑیل قرار دے کر قتل کیا جاتا تھا۔ 1762 ءمیں فرانس کے قصبے طولوس میں چونسٹھ برس کے پروٹسٹنٹ بڈھے ژاں کلاس پر اپنے ہی کیتھولک بیٹے کو قتل کرنے کا الزام لگایا گیا۔ ہاتھ اور بازو کھینچ کر اتار دیے گئے، پھر لوہے کی سلاخ سے توڑے گئے۔ حلق کے راستے کئی سیر پانی معدے میں اتار دیا گیا اور بالآخر پہیے سے باندھ کر مار دیا گیا۔ باپ کی بے گناہی پر والٹیئر دو برس تک دہائی دیتا رہا۔ 1764ء میں ژاں کلاس بے گناہ قرار پایا۔ سترہویں صدی میں سالم کے قصبے میں عورتوں اور بچوں سمیت بیسوں افراد شیطان، چڑیل اور جادو کے الزام میں قتل کر دیے گئے۔ آرتھر ملر نے میکارتھی ازم کے خلاف اپنے ڈرامے ’آزمائش کی گھڑی میں‘ میں ’سالم مقدمے‘ کو استعارہ بنایا تھا۔ میکارتھی ازم کیا ہے؟ وطن سے محبت کا نعرہ لگایا جائے اور ہجوم کو دیوانگی کی دعوت دی جائے۔ پہلے سے طے کیا جا چکا کہ کسے مجرم قرار دینا ہے۔ فرد جرم کو جرم قرار دینا ہی کلیسائی احتساب اور انصاف کا قتل ہے۔ انصاف اسم اور فعل میں فرق کرنے کا نام ہے۔ مسلمان، ہندو یا مسیحی ہونا جرم نہیں۔ گورا یا کالا ہونا جرم نہیں۔ جرمن یا روسی ہونا جرم نہیں۔ جرم کے فعل کو اجتماعی شناخت سے نسبت نہیں۔ اشتعال کو انصاف کا ذریعہ قرار دینا دراصل تقدیس کے نام پر اپنے لیے کلی اور مطلق اختیار کا مطالبہ کرنا ہے۔ انسانوں میں عقیدے اور خیالات کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ عقیدے کی آزادی ہر فرد کے لیے اس محترم دائرے کا نام ہے جس کے اندر سوال نہیں اٹھایا جاتا۔ یہ آزادی دوسروں کے حق اختلاف کا احترام کرنے سے مشروط ہے۔ سو برس پہلے امریکا میں یہ منظر عام تھا کہ نقاب پوش سفید فام ہجوم سڑکوں پر نکل آتا تھا اور رنگ دار افراد کو جہاں دیکھتا تھا موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا۔ ژاں پال سارتر کی تمثیل ’معزز طوائف‘ بیسویں صدی کی معتبر دستاویز ہے۔ اگرچہ ہمارے درمیان ہولوکاسٹ پر سوال اٹھانے والے بزرجمہر موجود ہیں لیکن انسانی تاریخ پر ساٹھ لاکھ انسانوں کی موت کا دھبہ جواب دہی کے امکان سے بے نیازی کی منڈیر پر کھڑے ہو کر مٹایا نہیں جا سکتا۔ جواب دہی سے امان کو انگریزی میں Impunity کہتے ہیں۔ نفرت، تعصب، اشتعال، ریا کاری اور خود راستی کے ہوتے ہوئے انصاف کی پاسداری ممکن نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہو سکتا تو صاحبان تقویٰ نے عارف اقبال بھٹی اور راشد رحمن کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا ہوتا۔

ہمارا انصاف کا تصور اس قدر منتخب ہے کہ اسے روزگار کے منتخب ہی سمجھ پاتے ہیں۔ خبر آئی ہے کہ آئین کی شق 184/3 کی گھنی شاخ پاکستان کے واماندہ شہریوں کے حقوق پر سایہ فگن ہو گئی ہے۔ سمپورن سنگھ گلزار نے بارش کی رات اور چارآنے واپس مانگے تھے۔ احتساب کا چرچا ہے۔ مہر و التفات کا موسم ہے۔ بارش تو ہمیں نصیب نہیں ہوئی۔ ہمارے دھان سوکھے رہے۔ دھوپ کے کچھ برس واپس مانگنا ہیں۔ جسٹس منیر نے ڈوسو کیس میں آمریت کو نظریہ ضرورت کے نام پر جو عشرہ خزاں بخشا تھا، کیا واپس مل سکتا ہے۔ عاصمہ جیلانی کیس میں یحییٰ خان کو غاصب قرار دیا گیا تھا۔ یحییٰ خان نے حکومت غصب نہیں کی تھی ہمارا آدھا ملک غصب کیا تھا۔ ازراہ کرم بتا دیا جائے کہ کس سے واپس مانگا جائے۔ بیگم نصرت بھٹو کیس میں عدالت عظمیٰ نے محدود مدت کے لیے آئین کے تعطل کی جو اجازت دی تھی، کیا اس مدت کے تعین کی درخواست کی جا سکتی ہے؟ ظفر علی شاہ کیس میں تین برس کی جو مدت پرویز مشرف کو بخشی گئی تھی، 30جولائی 2009 ءکو واگزار کرنے کی سبیل کیوں نہیں ہو سکی؟ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اپیل کا فیصلہ تین اور چار میں منقسم تھا۔ بھٹو صاحب کی سزائے موت کا اخلاقی جواز دریافت کیا جائے یا حرف قانون کافی ہو گا۔ ہم فکر و نظر کے ایسے منتخب واقع ہوئے ہیں کہ جہاں چاہتے ہیں، اختلافی نوٹ کا اخلاقی دامن تھام لیتے ہیں اور جہاں ہمارے پائیں باغ کی آبیاری کا امکان ہو، قانون پر نظرثانی سے صاف منڈیا ہلا دیتے ہیں۔ چھ برس قبل میمو گیٹ اسکینڈل میںمیاں نواز شریف درخواست گزار تھے۔ پانامہ کیس کے فیصلے پر محترم آصف علی زرداری کو تحفظات ہیں۔ تاریخ کی آئینی عرضداشت زیر شق 184/3 صرف یہ ہے کہ دونوں مقدمات میں فریق حقیقی کا تعین کر دیا جائے۔ اب جبکہ یہ نظیر قائم ہو چکی کہ قانون کا فیصلہ ادب کے حوالوں سے شروع ہو سکتا ہے تو آئیے، ٹی ایس ایلیٹ کی نظم ’الفرڈ جے پروفراک کا نغمہ محبت‘ سے ایک بند پڑھتے ہیں۔ اردو ترجمے کی مجال نہیں۔ اس میں کچھ احتساب اور فیصلے کا ذکر آتا ہے۔

There will be time to murder and create,

And time for all the works and days of hands

That lift and drop a question on your plate;

Time for you and time for me,

And time yet for a hundred indecisions,

And for a hundred visions and revisions,

Before the taking of a toast and tea.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).