سقراط، فرخندہ، مشال خان اور ہم سب


399  قبل مسیح کا دور ہے۔ یونان کے شہر ایتھنز میں سقراط کے خلاف نوجوانوں کو گمراہ کرنے اور یونان کے دیوتاؤوں کے وجود سے انکار کرنے کا الزام لگا ہے۔ عدالت سجتی ہے۔ پانچ سو ایک (501) ارکان پر مشتمل جیوری کا انتخاب ہوتا ہے۔ مقدمہ چلتا ہے۔ دو سو اسی (280) ممبران سقراط کے خلاف فیصلہ سناتے ہیں۔ سقراط کو زہر کا پیالہ پینے کی سزا سنائی جاتی ہے۔ سقراط کو اس کے شاگرد بھاگنے کا مشورہ دیتے ہیں مگر سقراط بھاگنے سے انکار کردیتا ہے اور حق کیلئے زہر کا پیالہ پی لیتا ہے۔

گھڑی کی سوئی تیزی سے سفر کرکے مئی 2012 پہنچ جاتی ہے۔ سقراط کو سزا سنائے 2400 سال گزر چکے ہیں۔ یونان کے اسی شہر ایتھنز میں ایک بار پھر اہلِ یونان عدالت سجاتی ہے۔ ایک بار پھر وہی مقدمہ چلتا ہے۔ ملزم وہی ہے، شہر بھی وہی ہے لیکن ججز نئے ہیں۔ اس بار سقراط کو بری کیا جاتا ہے اور 2012 کا یونان اعتراف کرتا ہے کہ 2400 سال پہلے کے یونان نے غلط فیصلہ سنایا تھا۔ یونانی بحیثیت قوم فیصلہ کرتی ہے کہ ہم میلیٹس (سقراط کے مخالف) کے نہیں بلکہ سقراط کے پیروکار ہیں۔ ہمارا تعلق یونان کے اس گروہ سے نہیں جس نے فلسفے کے عظیم ترین استاد کو سچ بولنے پر زہر کا پیالہ دیا تھا بلکہ ہمارا تعلق اس گروہ سے ہے جس نے سقراط کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔

19 مارچ 2015 کا دن ہے۔ یونان سے ہزاروں میل دور افغانستان کے دارالحکومت کابل میں فرخندہ ملک زادہ پر الزام لگتا ہے کہ اس نے قران پاک کو نذرِ آتش کیا ہے۔ 19 مارچ سے کچھ دن پہلے فرخندہ نے اپنے گھر والوں کو مسجد شاہ دو شمشیرہ میں ہونے والے توہم پرستی کے بارے میں آگاہ کیا تھا جہاں پر ایک مُلا سادہ لوح عورتوں کے ساتھ دھوکہ اور فریب کررہا تھا۔ ساتھ ہی فرخندہ نے گھر والوں کو بتایا تھا کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھائے گی۔ 19 مارچ کو جب فرخندہ اس غیر اسلامی فعل کے بارے میں احتجاج کرتی ہے تو اس پر قران کو جلانے کا جھوٹا الزام لگتا ہے۔ لوگ جوق در جوق مسجد میں جمع ہوجاتے ہیں۔ عوام کی عدالت سجتی ہے۔ وہی پر موجود سینکڑوں لوگ جج بن جاتے ہیں اور فرخندہ کو سُنے بغیر سزا سنائی جاتی ہے۔ وہی لوگ جلاد کا روپ دھار لیتے ہیں اور فرخندہ کو مکوں، لاتوں، پتھروں، ڈنڈوں سے مارنا شروع کردیتے ہیں۔ پولیس موقع پر پہنچ جاتی ہے۔ لوگوں کو مشتعل کرنے کیلئے ہوائی فائرنگ ہوتی ہے۔ پولیس فرخندہ کو بچانے کی کوشش کرتی ہے لیکن مشتعل افراد کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ “اللہ اکبر” کے نعرے بلند ہوتے ہیں۔ پولیس ہجوم کو قابو کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے اور ایک بار پھر فرخندہ ہجوم کے ہتھے چڑھ جاتی ہے۔ فرخندہ کو مار کر لاش جلا دی جاتی ہے۔

کچھ ہی دنوں میں فرخندہ کیلئے ملک بھر میں ریلیاں نکلتی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں عورتیں اور مرد اس قتلِ ناحق کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار جنازے کو کندھا دینے والوں میں صرف عورتیں شامل ہیں۔ افغانستان کا صدر اشرف غنی اس واقعے کی مذمت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور واقعے میں ملوث 49 افراد کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ان تمام پولیس افسروں کو برطرف کیا جاتا ہے جو اس قتل کو جائز قرار دے رہے تھے۔ مجرموں کو دس سال سے لیکر بیس سال تک کی سزائیں سنائی جاتی ہے۔ اس سانحے کو افغانستان میں عورتوں کے حقوق کیلئے ایک سنگ میل واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔ افغانستان جیسا ملک جو کئی دہائیوں سے جنگ کی زد میں ہے اس پُر تشدد ہجوم کے ساتھ کھڑے ہونے سے انکار کردیتا ہے اور فرخندہ کے ساتھ کھڑے ہوکر اسے انصاف دلانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

13 اپریل 2017 کا دن ہے۔ سرزمینِ یونان کے واقعات سے بے خبر اور افغانستان کے ہر واقعہ سے با خبر ملک پاکستان کے شہر مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان پرسوشل میڈیا میں توہین آمیز مواد پوسٹ کرنے کا الزام لگتا ہے۔ یاد رہے کہ 13 اپریل سے کچھ ہی دن پہلے مشال خان ایک انٹرویو میں وی سی کی عدم دستیابی سمیت یونیورسٹی انتظامیہ پر کچھ الزامات لگا چکے ہیں۔ یونیورسٹی میں مشتعل طلبا کا ایک ہجوم جمعرات 13 اپریل کو شعبہ ابلاغ کے طالب علم مشال خان کو گھیرے میں لے لیتی ہے۔ عوام کی عدالت سجتی ہے۔ نہ سرکاری جج کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ ہی مشال خان کو صفائی کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ وہی پر فیصلہ سنا دیا جاتا ہے۔ مشال کو گولی ماری جاتی ہے۔ اس کی لاش زمین پر بے حس پڑی ہوئی ہے لیکن ہجوم میں موجود لوگوں کا دل ٹھنڈا نہیں ہوا ہے۔ وہ اپنی زد و کوب جاری رکھتے ہیں اور لاش کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔

اس واقعے کو کئی دن گزر چکے ہیں لیکن اب تک ہم نے بحیثیت پاکستانی یہ فیصلہ نہیں کیا کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں۔ کیا ہم اس ہجوم کا حصہ ہیں جو خود ہی قاضی اور خود ہی جلاد بن کر قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیکر فیصلہ سناتی ہے اور سرِ عام بے گناہوں کو سزا دیتی ہے یا وہ ہجوم جو اپنے سامنے ظلم ہوتا ہوا دیکھ کر اس کو روکنے کے بجائے اس کی ویڈیو بناتے ہیں؟ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اس ہجوم کا حصہ ہے جو حقائق جانے بغیر کسی کو بھی دن دہاڑے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں یا ہم مشال خان جیسے مظلوم کے ساتھ کھڑے ہیں جو صرف اور صرف اختلاف رائے رکھنے کی وجہ سے مار دیا جاتا ہے؟ کیا ہمارا تعلق یونان کے اس قبیلے سے ہے جس نے سقراط کو زہر دیا تھا یا اس نئے یونان سے جس نے اپنی غلطی کا اعتراف کرکے سقراط کے حق میں فیصلہ سنایا؟ کیا ہم ان افغانیوں سے تعلق استوار کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے فرخندہ جیسے بے گناہ کی لاش کو نذر آتش کیا یا ہمارے لئے وہ افغانی محترم ہے جنہوں نے ظلم کا ساتھ دینے سے انکار کیا۔

اہلِ یونان سقراط کا مقدمہ لڑ کر سقراط کو واپس نہیں لا سکے لیکن انہوں نے اپنی غلطی کا ازالہ کرنے کیلئے بحیثیت ایک قوم فیصلہ کیا کہ ہم ظالم نہیں بلکہ مظلوم کے ساتھی ہیں۔ افغانیوں نے بھی جو کچھ کیا اس سے فرخندہ واپس نہیں آسکتی تھی لیکن انہوں نے دنیا کو یہ دکھایا کہ وہ ظلم برداشت کرنے والے نہیں اور نہ ہی وہ ناحق قاتلوں کا ساتھ دینے والوں میں سے ہیں۔ مشال کے مجرموں کو بھی سزا دینے سے مشال واپس نہیں آئے گا لیکن ان درندوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بعد ہی ہم مشال خان کی روح کو سکون فراہم کرسکیں گے۔ مجرموں کو سزا دینے سے نہ صرف ان تمام پاکستانیوں کا اعتماد بحال ہوگا جن کا قانون اور انصاف پر سے اعتبار اٹھ چکا ہے بلکہ اس کے بعد کوئی بھی قانون کو ہاتھ میں لینے کی جرات نہیں کر سکے گا۔ مشال کے والد کے بقول اس کے بعد کسی بھی باپ کو یہ دن دیکھنا نہیں پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی ہم اپنے آنے والی نسل کو بالعموم اور طلبا کو بالخصوص منہ دکھانے کے قابل ہو جائیں گے۔ دوسری صورت میں تاریخ میں ہمارا شمار ان بزدلوں میں ہوگا جنہوں نے حق پر ڈٹ جانے کے بجائے ظالموں کا ساتھ دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).