راحیل شریف سعودیہ سدھار گئے


پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل(ر) راحیل شریف آج اسلامی ملکوں کی مشترکہ فوج کی کمان سنبھالنے کے لئے سعودی عرب روانہ ہوگئے ہیں ۔ انہیں حکومت نے ایک روز پہلے ہی اس عہدے پر کام کرنے کے لئے این او سی جاری کیا تھا۔ راحیل شریف کو لانے کے لئے سعودی عرب نے خصوصی طیارہ لاہور بھیجا تھا، جس میں سابق آرمی چیف اپنے اہل خانہ کے ساتھ آج سہ پہر لاہور سے ریاض روانہ ہوئے۔ اس تعیناتی کے حوالے سے ملک میں اختلافات موجود تھے اور ایران نے بھی اس بات کی مخالفت کی تھی کہ پاکستان کا ایک جنرل سعودی عرب کی نگرانی میں بننے والے فوجی اتحاد کا سربراہ بنے گا۔ لیکن حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہ فوجی اتحاد ایران یا کسی بھی ملک کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کرے گا۔ اس کا مقصد صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ ہوگا۔ اس اتحاد کا سرکاری نام بھی دہشت گردی سے جنگ کا اسلامی فوجی اتحاد IMAFT رکھا گیا ہے۔

اس اتحاد میں 39 ممالک شامل ہیں اور اس کے قیام کا اعلان سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے دسمبر 2015 میں کیا تھا۔ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں یہ اعلان کرتے ہوئے شہزادہ محمد نے کہا تھا کہ کئی عرب ملکوں کے علاوہ پاکستان بھی اتحاد کا رکن بن گیاہے۔ تاہم اس وقت وزارت خارجہ کا مؤقف تھا کہ پاکستان کو اس اتحاد کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ نومبر میں جنرل راحیل شریف کی فوج سے ریٹایئرمنٹ کے بعد یہ خبریں سامنے آنا شروع ہوگئی تھیں کہ انہیں نئے اسلامی فوجی اتحاد کا سربراہ مقرر کیا جا رہا ہے۔ تھوڑے عرصے بعد ہی راحیل شریف ایک خصوصی سعودی طیارے میں شاہ سلمان کے خصوصی مہمان کے طور پر سعودی عرب گئے تھے جہاں سرکاری طور پر ان کی پذیرائی کی گئی تھی۔ اور انہوں نے عمرہ کی سعادت بھی حاصل کی تھی۔ اس دوران ان کی نئی تقرری کے بارے میں افواہیں گردش کرتی رہیں لیکن راحیل شریف یا حکومت کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ پھر وزیر دفاع خواجہ آصف نے سعودی درخواست پر جنرل راحیل کی تقرری کا ذکر کیا اور بتایا کہ سعودی حکومت نے سرکاری طور پر ان کی خدمات طلب کی ہیں اور حکومت یہ اجازت دینے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ وزارت دفاع نے اب اعلان کیا ہے کہ جنرل راحیل شریف کو جی ایچ کیو کے مشورہ سے این او سی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ابھی تک اس فوجی اتحاد کے بارے میں تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔ نہ ہی یہ پتہ ہے کہ اس کے لئے فوج کون فراہم کرے گا۔ کیا مختلف رکن ملکوں سے دستے لئے جائیں گے یا یہ اتحاد خود فوجی بھرتی کرکے ان کی تربیت کا اہتمام کرے گا۔ اس فوجی اتحاد کا تصور سعودی شہزادہ محمد نے پیش کیا تھا اور وہی اسے حقیقت بنانے کے لئے تگ و دو کررہے ہیں۔ خیال ہے کہ جنرل راحیل شریف سے اب اس فوج کو منظم کرنے اور اس کا طریقہ کار طے کرنے کے لئے کہا جائے گا۔ اس کے بعد تمام رکن ملکوں کے وزرائے دفاع مل کر ان قواعد و ضوابط کی توثیق کریں گے۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ اس فوج کے اخرجات اور انتظامی ذمہ داری سعودی عرب ہی قبول کرے گا۔ وہی اس اتحاد کا لیڈر بھی ہے۔

سعودی عرب کی نگرانی میں فوجی اتحاد کی سربراہی کے لئے سابقہ آرمی چیف کی تقرری پر ملک میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اتحاد سعودی عرب کی عسکری اور سیاسی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے قائم ہؤا ہے۔ اسی لئے اس میں کسی شیعہ ملک کو شامل نہیں کیا گیا۔ یہ خدشہ بھی سامنے آیا ہے کہ سعودی عرب اس اتحاد کو مشرق وسطیٰ میں ایران کے خلاف اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے استعمال کرے گا۔ اسی لئے یہ اندیشہ ہے کہ اس میں پاکستان کے براہ راست ملوث ہونے سے ایران کے ساتیھ پاکستان کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ تاہم حکومت اور جنرل راحیل شریف نے ان اندیشوں کو اہمیت نہیں دی۔

ملک کی سیاسی اپوزیشن کی طرف سے بھی اس اتحاد کی سربراہی کے لئے سابق آرمی چیف کی تقرری پر اعتراض کیا گیا تھا۔ خاص طور سے عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف نے اس بارے میں سخت مؤقف اختیار کیا تھا۔ تاہم گزشتہ ماہ عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملاقات کے بعد عمران خان نے اس اتحاد کی مخالفت ترک کردی تھی۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ فوج اپنے سابقہ آرمی چیف کے نئے عہدے پر مطمئن ہے اور اسے ملکی سلامتی کے لئے سود مند سمجھتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سعودی عرب اس منصوبہ کو آگے بڑھانے پر بضد تھا۔ ایسی صورت میں پاکستان اگر جنرل راحیل کی خدمات دینے سے انکار کرتا تو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں خلیج پیدا ہو سکتی تھی۔ اس کے برعکس جنر ل راحیل کی سربراہی میں کوئی بھی فوجی اتحاد پاکستانی مفادات کی نگہبانی کرے گا۔

اس اتحاد کے حوالے سے چونکہ سعودی عرب کے ارادے واضح نہیں ہیں اور ابھی سارا منصوبہ ابتدائی مراحل میں ہے اس لئے شبہات کی فضا بہر حال موجود ہے۔ اس کا اظہار ایران کی طرف سے کیا بھی جا چکا ہے۔ اب پاکستان کو نہایت ہوشیاری سے اس معاملہ سے نمٹنا ہوگا تاکہ ایک ملک کو خوش کرنے کے لئے اٹھایا گیا قدم ، دوسرے ملکوں سے اس کی کشیدگی کاسبب نہ بنے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2765 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali