صدقے ترے فیصلے کے۔۔۔۔ مانو جھومر ڈالو، مانو دھمال کھیلو


ہماری طبیعت شروع سے ہی ذرا ڈپلومیٹک ٹائپ واقع ہوئی ہے، عام بچوں سے ذرا ہٹ کر. پھوپھی جان کے بھی منظور نظر رہے اور امی جان کی آنکھوں کا تارا بھی. اللہ بخشے نانی مرحومہ کہا کرتی تھیں کہ کلثوم کی بڑی والی وہ چمچہ ہے جو ہر دیگ میں فٹ آ جاتا ہے. جی، خاصی زیرک اور جہاندیدہ خاتون تھیں، جیسا کہ آپ ملاحظه فرما ہی چکے. ورنہ خاکسار کا ریکارڈ تو ایسا شاندار تھا کہ سابقہ ممانی بھی اسی شفقت سے پیش آنے کو تیار تھیں جس سے موجودہ ماموں. دونوں پارٹیوں کو اسی خوش فہمی میں مبتلا رکھا کہ جہاں پناہ ہی قوم کی آنکھوں کا نور ہیں اور باقی سب فتور ہیں. جی، بیک وقت! کہا جاتا ہے کہ بچے من کے سچے لیکن ہمارا من تو جلیبی  کی طرح سیدھا تھا، میٹھا اس قدر تیز کہ ذیابیطس ابھی ہوئی کہ ابھی ہوئی.

قبلہ، بڑی کمال کی چیز ہے یہ ڈپلومیسی بھی. پہناتی ہے درویش کو خلعت دارا . وہ تو ابا جان ملک کے وزیر اعظم  نہیں تھے ورنہ آج ہمارے ہاتھ میں بھی کم سے کم انگلستان میں  سفارت کاری کا منصب تو ہوتا ہی. بیک ڈور، فرنٹ ڈور، رائٹ ڈور ، لیفٹ  ڈور، ہر قسم کی ڈپلومیسی کر کے دکھاتے اقوام عالم کو. جی ہاں!

اپنی ذات میں شروع سے ہی انجمن ہیں تو خود اعتمادی کی دولت بھی کوٹ کوٹ کر بھری تھی یا  کے کوٹی  گئی تھی. دور دور تک کوئی مقابل نہ دکھتا تھا. راوی چین ہی چین لکھتا تھا. لیکن کل سے تو ہم بھی کچھ insecure سے ہیں. عجیب اضطراب ہے. عجیب بے چینی ہے. حریف اس وقت رقیب معلوم ہو رہا ہے. جی ،صحیح پہنچے. اپنا اشارہ عدالت عظمیٰ کے اسی جان نثار بینچ کی جانب ہے جس نے پانامہ کیس کا ایسا تاریخی فیصلہ کیا کہ پورے ملک میں جشن کا سا سماں ہے، پارٹی کوئی بھی ہو. بس پارٹی آن ہے. یا  یوں کہئیے کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے. ہر طرف لڈیاں ہی لڈیاں، ہر طرف لڈو ہی لڈو. بس ہمارا ہی کلیجہ بھنا رکھا ہے. اپنا تاج چھنتا  ہوا جو معلوم ہو رہا ہے.

قوی امکان ہے کہ بٹ سویٹس والوں کے ہاں بیٹے کی پیدائش سے زیادہ خوشی اسی دن منائی گئی ہے. کاروبار کو تو مانو ماں کی دوا جنت کی ہوا  لگ گئی ہے. دونوں پارٹیوں کا برابر رش! کھڑکی توڑ رش !

خیر اپنا حسد اور جلنا بھننا ایک طرف رکھ کر اگر قوم کے وسیع تر مفاد میں سوچیں تو انہیں ہنسنے کھیلنے کے مواقع ملتے ہی کہاں ہے. خوشی پر تو مانو بن ہی لگا پڑا ہے. جو ٹی وی چینل لگا لو وہی روتی بسورتی صورت جس کا شوہر کسی اور کلمونہی کے چکروں میں ہے اور یہ فرشتہ سیرت جنم جلی صبح شام نہ صرف پورے کنبے کی بیس روٹیاں پکاتی ہے بلکہ جیٹھانی کے بچوں کو حساب  بھی پڑھاتی ہے. خبرنامے اور سیاسی شوز کا تو ذکر ہی بےسود ہے. کہنے کو ٹی  وی انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ ہے لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی ہے. کبھی کہیں جو ہنسنے گانے کا موقع مل بھی جائے تو وہاں یوں ہی اپنے بمبار بھائی بہن پھٹنے مرنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں. بہت efficient  ہیں قسم سے.

 یہاں آٹے ، دال، چاول کے فقدان پر تو بہت رویا جاتا ہے لیکن انٹرٹینمنٹ کی کمی کسی کو نہیں دکھتی. ہمیں تو بھنگڑے کے لیے بھی دھرنے پر جانا پڑتا ھو. ایسے میں جج صاحبان نے جو ایسا  ہومیوپیتھک … اوہ معاف کیجئے گا ڈپلومیٹک فیصلہ سنا دیا تو ہمیں سجدہ شکر بجا لانا چاہئے

جیسا کہ اس ملک میں کوئی اوپر نیچے، آگے پیچھے تو ہے نہیں. اگر آپ PTI سے تعلق نہیں رکھتے تو یقینا PMLN والے ہیں. اختلاف اور اخلاق کی گنجائش نہیں. انکے علاوہ کوئی سیاسی جماعت ہے نہیں. اور غیر سیاسی ہونے کا آپ کو حق نہیں.

سنا ہے کسی جج نے پٹیشن رد نہیں کی. دو نے تو فٹے منہ کہتے ہوئے جھنڈی بھی دکھا دی. ملک کے منتخب وزیر اعظم صاحب کو جے آئی ٹی کی گود میں دے پٹخا. لیکن حکمران جماعت خدا اور جج صاحبان کی رضا میں یوں صابر و شکر ہے کہ نہ تو لاہور میں کوئی لڈو چھوڑا نہ لڈی ڈالنے کی کوئی جگہ. ارے صرف دو نے ہی تو چورکہا ہے. کرسی تو بچ گئی ہے نہ. جان بچی سو لاکھوں پائے. دوسری طرف مخالف پارٹی بھی اخلاقی فتح کے جھنڈے گاڑے بیٹھی ہے. ان کا دارلخلافہ فیس بک ہے تو وہاں جشن کا سماں کئے بیٹھے ہیں.  ہر پانچ منٹ بعد ہماری ٹائم لائن پر انہی کے نقارے بجتے سنائی دے رہے ہیں. دونوں ہی اس فلم کے ہیرو ہیں اور دونوں  ہی ولن بھی. بہت کنفیوژن ہے بھئی اصلی فتح کون؟ حقیقی ہیرو کون؟ ہیرو تو یہ عدالت ہے جس نے نہ صرف دونوں  فریقین کو برابر خوش کیا بلکہ اگلے بیس سال کی بریکنگ نیوز کا بندوبست بھی کر دیا. بادام کا خرچہ سرکار کے ذمے.

ڈپلومیسی… وہ سوری ڈیموکریسی زندہ باد . یہ چیز مرے عزیز !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).